بدھ کے دن عشاء کے لگ بھگ جمعیت علمائے اسلام کے سینئر رہنما سابق سینیٹر مولانا حافظ حسین احمد انتقال فرمائے آخرت ہو گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت مولانا عِرض محمد مہتمم وبانی جامعہ مطلع العلوم بروری روڈ کوئٹہ کے ہاں حافظ حسین احمد نے 1951ء میں آنکھ کھولی۔ آپ نے حفظِ قرآن مجید اور ابتدائی دینی تعلیم اپنے مدرسے میں ہی حاصل کی۔ اسکول کی تعلیم بھی کوئٹہ سے حاصل کی۔آپ کے والد گرامی مولانا عِرض محمد صاحب جمعیت علما اسلام کے مرکزی اکابر میں سے تھے۔ حافظ صاحب دوران طالب علمی میں جمعیت طلبہ اسلام میں متحرک رہے۔1973ء میں جمعیت علماءاسلام کی رکنیت اختیار کی اور بہت جلد ایک مقبول اور ہر دلعزیز رہنما بن کر ابھرے۔ جمعیت علمائے اسلام کے ٹکٹ پر پہلی بار صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ پھر دو بار قومی اسمبلی اور ایک بار سینیٹ آف پاکستان کے بھی ممبر منتخب ہوئے۔ حافظ حسین احمد صاحب جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی عہدوں پر عرصہ تک سرفراز رہے۔ آپ صحت کے زمانہ تک جمعیت کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات بھی رہے اور بڑے فعال رہے۔ آپ نے بڑی آب و تاب سے اس منصب کو عروج بخشا۔ میڈیا والے آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے اور آپ کے برجستہ جملوں کی سرخیاں بنائی جاتی تھیں۔
جناب پرویز مشرف کے دور آمریت میں پاسپورٹ میں خانہ مذہب کے اندراج کے لیے تحریک چلی تو حافظ حسین احمد کی سربراہی میں مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما مولانا ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر، جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما جناب لیاقت بلوچ اور فقیر راقم پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی۔ اس تحریک کو ان دنوں فعال اور موثر بنانے میں حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ نے دن رات ایک کر دیے۔ کمیٹی کے ذریعے احتجاجی پروگرام ملکی سطح پر تشکیل دیے۔ گورنمنٹ سے ملاقاتیں، محکمہ داخلہ اور نادرا دفاتر سے رابطہ، گویا شش جہات اس جدوجہد کو کامیاب بنانے میں آپ نے مثالی کردار ادا کیا۔
اس تحریک کے سلسلے میں آخری جلوس جو اسلام آباد میں نکالا گیا اور زیرو پوائنٹ پر احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا، اس میں حضرت قاضی حسین احمد صاحب مرحومؒ، حضرت مولانا عبدالغفور حیدری، ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر اور دیگر مرکزی قائدین کے ساتھ آپ کا یادگار خطاب ہوا اور پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کرم کیا کہ اہل دین کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا اور ایک بڑا مسئلہ حل ہوگیا۔ اس آخری احتجاجی جلوس و جلسہ میں خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد علیہ الرحمہ یورپ کے تبلیغی اور دعوتی سفر اور قائد محترم مولانا فضل الرحمن اپنی علالت کے باعث شریک نہ ہو سکے تھے۔ ان حضرات کی غیر موجودی میں متذکرہ بالا قیادت نے اس خلا کو پر کیا جس میں حافظ حسین احمد سب سے نمایاں تھے ۔
حضرت حافظ حسین احمد صاحبؒ بہت فعال اور متحرک سیاسی و دینی رہنما تھے۔ آپ جہاں جاتے، وہاں کے جماعتی ساتھیوں میں ایک نیا جذبہ عمل پیدا ہوتا اور کام کی وسعت اور جماعتی سرگرمیوں میں بہار کا سماں قائم ہو جاتا۔ حضرت حافظ صاحبؒ جہاں جماعتی سطح پر ہمیشہ ممتاز ونمایاں رہے، وہاں بڑے عرصے تک ملک کی مرکزی قیادت میں آپ کا شمار رہا۔آپ کی رائے کا ہر جگہ احترام رہا۔ بسا اوقات مشکل سے مشکل بات کو پارلیمنٹ، پبلک جلسوں یا پریس کے سامنے آپ بذلہ سنجی سے اتنے آسان پیرایہ میں بیان کر دیتے تھے کہ جو سنتا وہ اش اش کر اٹھتا اور پھر مدتوں اس کو دہرا کر عوام و خواص لطف اندوز ہوتے رہتے۔ پارلیمان کے جس ایوان میں بھی آپ ہوتے، وہاں آپ کی وجہ سے رونق لگی رہتی۔تلخ سیاسی حقائق کو شگفتہ انداز میں بیان کرنا آپ کا خاصہ تھا۔
حافظ صاحب کی زندگی میں جماعتی حوالے سے کچھ اتار چڑھاو بھی آیا، لیکن بالآخر دو چار دن کے بعد بہرحال یہ اپنی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے علمبردار کے طور پر آگے بڑھتے نظر آئے۔ حق تعالیٰ مرحوم کی تربت کو سراپا رحمتوں سے مالامال فرمائے۔ حافظ صاحب مرحوم کچھ عرصے سے شوگر اور گردوں کی خرابی کے عارضے میں مبتلا تھے۔ تمام تر پریشان کن صورتحال کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ بڑے بلند حوصلہ کے ساتھ مرکزی پروگراموں میں تشریف لاتے، جماعتی رفقا سے رابطے میں رہتے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے۔ مولانا فضل الرحمن مدظلہم نے سو فیصد صحیح کہا کہ ان کی وفات سے حسین یادوں کا ایک سنہری باب اپنے اختتام کو پہنچا۔ وہ کیا گئے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک یادگار باب بند ہو گیا۔ حق تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے، آمین۔
