میرے ابو جی حکیم حافظ محمد اعظم سومرو

تحریر: حکیم فاروق سومرو، منچن آباد

آج ابو جی کو ہم سے بچھڑے پورے 26 سال بیت گئے۔ میرے والد صاحب حکیم حافظ محمد اعظم سومرو 1951ء میں پیدا ہوئے۔قرآن مجید حفظ اور دینیات کی کتابیں اپنے والد یعنی میرے دادا مولانا حافظ محمد امین سومروؒ صاحب سے گھر پر ہی پڑھیں۔ طبابت چونکہ ہمارے خانوادے کا خاندانی مشغلہ ہے اس لئے والد صاحب نے طب کی علمی و عملی تعلیم اپنے چچا استاذ الاطباء حکیم حافظ محمد عباس سومروؒ صاحب سے حاصل کی۔ ابو جی کو اس فن سے طبعی مناسبت اور مستعد طبیعت عطا ہوئی تھی اس لئے آپ نے اپنی تمام تر توجہ اسی طرف مبذول کردی اور علاقہ بھر کے ماہر اطباء میں شمار ہونے لگے۔

ابتداء میں آپ اپنے چچا کے قائم کردہ دواخانے الفا یونانی لیبارٹریز میں ہی خدمات انجام دیتے رہے، 1975ء میں اپنا علیحدہ مطب اور دواساز ادارہ الحافظ دواخانہ منچن آباد قائم کیا۔ اس دواساز ادارے نے اتنی ترقی کی کہ پورے پاکستان میں کاروبار پھیل گیا۔ اس دواخانہ کے اعلٰی و ارفع معیار کا اندازہ اس امر جا سکتا ہے کہ ادویات کی مانگ کا دائرہ سعودی عرب اور افغانستان تک پھیل گیا۔
دواخانہ کے کارکنوں کو حکم تھا کہ اگر کوئی دوا بوقت تیاری خراب ہو جائے خواہ وہ کتنی ہی قیمتی ہو اسے بلا تامل تلف کر دیا جائے نیز ایسے مفردات جن کی عمر پوری ہو چکی ہو انہیں پھینکوا دیا جاتا۔

والد صاحب کی تشخیص بڑی صحیح اور حیرت انگیز ہوتی تھی، قدرت نے آپ کو اس فن سے ایسی خاص مناسبت عطا فرمائی ہوئی تھی کہ آپ فوراً اسباب مرض کو سمجھ جاتے تھے، بڑے بڑے اطباء مشکلات پیش آنے پر آپ کی طرف رجوع کرتے اور آپ کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور اس بات پر کبھی فخر نہیں کیا بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ میں تو “خادمِ اطباء” ہوں اور اپنے نام کے ساتھ ہمیشہ “خادم خلق و فن” لکھا کرتے تھے۔

آپ کا رجحان زیادہ تر علاج بالمفردات کی طرف تھا اور اس میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ مرکبات میں سے ان دواؤں کو پسند کرتے تھے جن میں کم سے کم اجزاء شامل ہوں۔ دوا شناسی اور دواسازی طب کے ایسے شعبے ہیں جن پر عبور ہونا نہایت ضروری ہے۔ والد صاحب کو ان میں ایسا کمال حاصل تھا کہ آپ کے معاصرین میں سے شاید ہی کسی کو ہو۔جڑی بوٹیوں سے متعلق آپ کی معلومات نہایت وسیع تھیں۔

ایسے باکمال ہونے کے باوجود کبھی اپنی قابلیت کا اظہار نہ فرماتے تھے بلکہ اپنے آپ کو ہمیشہ طالب علم ہی سمجھتے رہے۔ نام ونمود سے بہت بچتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ

ہر کہ دربندِ نام و آوازہ است
خانۂ او برونِ دروازہ است

ہم سب بہن بھائیوں نے ناظرہ و حفظ قرآن اور مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کی “تعلیم الاسلام” زبانی حفظ اپنے والد صاحب سے پڑھی ۔ ہمارے علمی اور ادبی ذوق کے پروان چڑھانے میں بھی والد صاحب کا ہی ہاتھ ہے، ایک دفعہ لاہور سے لوٹے تو حکیم محمد سعیدؒ دہلوی کا بچوں کے لئے ماہوار پرچہ “ہمدرد نونہال” کے کافی سارے شمارے لائے۔ جو سب بہن بھائیوں نے بڑے ذوق سے چند دنوں میں چٹ کر ڈالے۔ جس کے بعد ہر ماہ رسالہ گھر آنے لگا۔ والد صاحب شاعری کا بھی اچھا مذاق رکھتے تھے، کبھی خود بھی شعر کہہ لیا کرتے اور صابرؔ تخلص فرماتے تھے۔

تحدیث بالنعمت کے طور کہتا ہوں کہ حافظہ ، ذہانت اور خوشخطی ہمارے خاندان میں موروثی طور پر پائی جاتی ہے۔ والد صاحب کا حافظہ کمال کا تھا اوراس کے ساتھ ساتھ بہت خوشخط بھی تھے، اس حوالے سے ان شاء اللہ علیحدہ مفصل مضمون لکھوں گا۔

پیر 15 فروری 1999ء کی صبح والد صاحب آبائی جامع مسجد منصفی میں فجر کی امامت فرما کر تشریف لائے۔ ہم بہن بھائیوں سے قرآن اور تعلیم الاسلام کا سبق سنا اور اگلا سبق پڑھایا۔اس دوران ایک آدمی کوئی فقہی مسئلہ پوچھنے آیا تو اس کو وہ مسئلہ بڑی خوش اسلوبی سے سمجھاتے رہے۔سبق سے فراغت کے بعد ہم سب ناشتہ کے بعد ابھی سکول پہنچے ہی تھے کہ ایک عزیز ہمیں سکول سے لینے آن پہنچا، گھر پہنچے تو اس تھوڑے سے وقت کے دوران والد صاحب اس دار فانی کو چھوڑ کر جا چکے تھے۔
اللہ تعالٰی ان کو کروٹ کروٹ راحتیں نصیب فرمائے! اٰمین

ادا کر کے قرض اپنی خدمات کا
سحر دم سے وہ جاگا ہوا رات کا
ابد کے سفر کو روانہ ہوا
مکمل سفر کا فسانہ ہوا