پاک ایران تعلقات

خطے میں امن و سلامتی کیلئے ایک دوسرے کی مثالی معاونت کرنے والے پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران کے مابین دوستانہ سفارتی تجارتی اور عوامی سطح کے روابط سات دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہیں۔ اگرچہ انقلابِ ایران کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں کچھ اتار چڑھاو آیا مگر کشیدگی کا عنصر کبھی پیدا نہیں ہوا۔ پاک ایران دوستی کی گہرائی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تو 1979میں ایرانی انقلاب کو پاکستان نے سب سے پہلے تسلیم کیا۔ یہ تاریخی اقدام ایک مضبوط پائیدار اور اٹوٹ بندھن کی بنیاد بنا، حالانکہ ہنود و یہود گٹھ جوڑ اس رشتے میں رخنہ ڈالنے کی کوشش میں مسلسل مصروف عمل ہے۔ بھارت کا ایران کی چابہار بندرگاہ میں معاونت فراہم کرنا اسی سازش کی کڑی تھی۔ ایران نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا تھا اور مثبت کردار ادا کیا تھا۔ پاکستانی طیاروں کو پارکنگ اور ایندھن بھرنے کیلئے اپنی سرزمین میں اترنے کی اجازت دی۔ پاکستان نے بھی ایران کے ساتھ ہمیشہ بھرپور ہمسائیگی اور بھائی چارہ نبھایا اور اب بھی نبھا رہا ہے۔ ایران پر صہیونی جارحیت کے دوران پاکستان نے اسے بھرپور سیاسی و عسکری سپورٹ فراہم کی۔ اسرائیلی سفاکیت کے خلاف ایران کا ساتھ دینے پر ایرانی پارلیمنٹ پاکستان تشکر تشکر کے نعروں سے گونج اٹھی جو ہمارے لیے بھی فخر کا مقام ہے۔ بلاشبہ پاکستان ہر مشکل گھڑی میں ہر محاذ پر ایران کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے اور رہے گا!

پاکستان نے سلامتی کونسل میں بھی ایران کی حمایت میں دلیرانہ موقف اپنایا جس پر ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے اپنے خطاب میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی اور صہیونی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے کو سراہا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تقریباً 909کلو میٹر کی مشترکہ سرحد ہے جو دونوں طرف سے بلوچستان کی سرزمین کو جدا کرتی ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائدِ ملت لیاقت علی خان نے 1949میں ایران کا سرکاری دورہ کیا جبکہ شہنشاہِ ایران نے 1950میں پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ کیا۔ شنید ہے کہ موجودہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں ایک اعلی سطح وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کریں گے۔ پہلے یہ دورہ 26جولائی کو شیڈول تھا مگر کچھ انتظامی مسائل کی وجہ سے اسے موخر کیا گیا۔ اس دورے کی تیاریاں حتمی مراحل میں ہیں۔ دورے کے دوران صدر مسعود پزشکیان کی وزیراعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری سے ملاقاتیں ہوں گی۔ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی اور اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے بھی ملاقاتوں کا شیڈول طے کر لیا گیا ہے۔ ایرانی صدر کی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملاقات بھی متوقع ہے۔ ممکنہ طور پر وہ اس ملاقات میں ایران اسرائیل جنگ کے دوران پاکستان کی بھرپور حمایت پر شکریہ ادا کریں گے۔

عالمی و علاقائی صورتحال کے تناظر میں یہ دورہ کئی لحاظ سے اہم ہو گا۔ دونوں ملکوں کے مابین دہشت گردی سے معیشت تک تمام شعبوں میں مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جانا بہت ضروری ہے۔ علاقے میں موجود دہشت گرد تنظیمیں، بلوچستان میں فتنہ الہندوستان اور افغانستان سے سر اٹھاتی داعش پاکستان اور ایران دونوں کیلئے چیلنج ہیں۔ امید ہے کہ ایرانی صدر کے متوقع دورے میں پاک ایران گیس پائپ لائن مکمل کرنے کے معاملے کو بھی امریکی دباؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آگے بڑھایا جائے گا۔ 1990میں کیے گئے اس معاہدے کے تحت ایران کی جانب سے 2009میں ایک ارب ڈالر مالیت سے پائپ لائن بچھائی جا چکی ہے جبکہ پاکستان امریکی پابندیوں کے باعث اس لائن کی تعمیر کا آغاز نہیں کر سکا۔ امریکا کی گیدڑ بھبکیاں صرف پاکستان کیلئے ہیں جبکہ دوسری جانب بھارت کسی امریکی پابندی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اگر بھارت کی سرحد ایران سے ملحق ہوتی تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بھارت نے امریکی پابندیوں کو ہوا میں اڑاتے ہوئے اپنی تیل کی تمام ضروریات ایران سے پوری کرنا تھیں۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ تمام تر مجبوریوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملکی مفادات کو ترجیح دیں۔ ہم امریکا کی نوآبادی نہیں کہ جو وہ کہے ہم کریں۔ ہم ملکی مفادات کی خاطر امریکی پابندیوں کو بالائے طاق کیوں نہیں رکھ سکتے؟

پاکستان اور ایران کے درمیان ترجیحی تجارتی معاہدہ 2000سے نافذ ہے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان نے 338اور ایران نے 309اشیا پر رعایتیں دے رکھی ہیں، امید ہے کہ ایرانی صدرکے دورے میں اس حوالے سے بھی ٹھوس پیشرفت ہوگی۔ سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور وزیراعظم شہباز شریف گزشتہ برس ایران سے سو میگاواٹ بجلی کی فراہمی کیلئے ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح بھی کر چکے ہیں۔ ایران نے بجلی کی فراہمی مزید بڑھانے کی پیشکش بھی کر رکھی ہے۔ کیا صدر مسعود پزشکیان کے متوقع دورے میں اس حوالے سے بھی مزید بات چیت ہوگی؟ بلاشبہ دونوں ممالک باہمی تجارت کا دائرہ انفارمیشن ٹیکنالوجی زراعت بجلی و گیس اور دیگر سیکٹرز میں بڑھانا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور ایران دو طرفہ تجارت کو موجودہ تین ارب ڈالر سے بڑھا کر آئندہ برسوں میں دس ارب ڈالر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ایرانی صدر کا متوقع دورہ پاکستان اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون سمیت علاقائی استحکام اور اقتصادی خوشحالی کو مضبوط بنانے کی نوید ثابت ہوگا۔ دونوں ملکوں کا علاقائی امن کے بارے میں موقف ہے کہ خطے میں پائیدار استحکام کشمیر اور فلسطین کے مسائل کو وہاں کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے پر منحصر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان قابلِ ذکر دفاعی و عسکری تعلقات بھی قائم ہیں۔ کراس اوور ٹریننگ دو طرفہ بحری مشقیں اور اعلی سطحی دفاعی دوروں کا تبادلہ عام ہے۔

اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ ایرانی صدر کا دورہ کئی حوالوں سے ایک اہم پیش رفت ہوگا تاہم اس میں دو آرا نہیں کہ اس متوقع دورے پر ہمارے ازلی دشمن بھارت کی نیندیں ابھی سے حرام ہو چکی ہیں اور امریکا بھی ایران کے ساتھ کسی تجارتی معاہدے کی صورت میں دھمکیاں دینے سے باز نہیں آئے گا۔ یہی ایک تلوار ہے جو ہر دم پاکستان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے۔گزشتہ برس جب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پاکستان آئے اور اس دوران کچھ معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے گئے تو امریکا کی طرف سے پاکستان کو تجارتی پابندیوں کی دھمکیاں ملی تھیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ بھی امریکی پابندیوں کی وجہ سے ہی التوا کا شکار ہے۔

پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اور اسے اپنے عوام کے بہترین مفاد میں فیصلے کرنے کا مکمل اختیار و آزادی حاصل ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم ملکی اور قومی مفادات کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنائیں۔ امریکی افواج کی بیس برس بعد افغانستان سے واپسی کے بعد شدت پسندی اور تخریب کاری کی جو تشویشناک لہر دیکھنے کو ملی ہے اس سے خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ علاقائی اور عالمی امن کی داعی قیادت اور نمائندہ اداروں کو ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے بھارت جو افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بناکر پاکستان کی سلامتی کے خلاف سادہ لوح لوگوں کو استعمال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا کی دہشت گردی کی روک تھام یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ مشرقِ وسطی کی موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر کہ جب اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے، عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کیلئے مسلم ممالک کا معاشی طور پر مضبوط ہونا ناگزیر ہو چکا ہے، چنانچہ مسلم دنیا کو یکجہتی پر زور دینا چاہیے کیونکہ اس وقت ایک مضبوط اسلامی بلاک کی اشد ضرورت ہے۔