ارباب حل و عقد سے لے کر ملک کے ایک عام شہری تک سب ہی اس بات کی تکرار کر رہے ہیں کہ پاکستان اس وقت بہت مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دشمن صرف سرحد پار سے حملے نہیں کر رہے بلکہ ملک کے اندر بھی لوگوں کو آپس میں لڑا رہے ہیں اور فساد پھیلا رہے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں سے آنے والی خبریں اور حکومتی زعماء کے بیانات بتاتے ہیں کہ فتنہ خوارج کے دہشت گردوں اور فتنہ ہندوستان کی سرگرمیاں لگاتار جاری ہیں اور انھیں بھارت کی پوری مدد حاصل ہے۔ بھارتی فوج کے سربراہ نے ایک حالیہ بیان میں نے پھر اعلان کیا ہے کہ آپریشن سندور تاحال جاری ہے۔ سرحدوں اگرچہ ماحول کشیدہ ہے تاہم بیان کے مندرجات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور بدامنی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ ایسے میں اہل وطن کی یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان سیاسی گروہوں، علیحدگی پسند جتھوں اور زبان یا علاقے کی بنیاد پر بننے والے گروہوں سے بھی خبردار رہیں جو جانے انجانے میں ہمارے دشمنوں کا ایجنڈا یا مقاصد پورا کر رہے ہیں۔ حال ہی میں پیش آنے والے وادی تیراہ جیسے واقعات اور اس پر ریاست دشمن عناصر کا فوج کے خلاف شدید منفی پروپیگنڈا، اس کی مثالیں ہیں کہ کیسے عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور کس طرح بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وادی تیراہ میں فتنہ الخوارج کی فائرنگ سے معصوم شہریوں کی شہادت پر وزیراعظم شہباز شریف نے گہرا دکھ اور افسوس ظاہر کیا ہے اور دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کا پختہ ارادہ ظاہر کیا ہے، تاہم دہشت گردی کے واقعات اور اس کے نتیجے میں عام لوگوںکی زندگی کو لاحق مشکلات نیز گھروں پر مارٹر گولے گرنے اور بچوں کی جانیں جانے جیسے واقعات سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ایسے حالات میں جب مقامی لوگ احتجاج کرتے ہیں اور پھر ان پر فائرنگ ہوتی ہے، چاہے وہ فتنہ الخوارج نے ہی کی ہو لیکن ایسے حالات صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ ایسے میں فوج اور دیگر ادارے کی جانب سے صبر، سمجھداری اور قبائلی روایات کے تحت حالات کو سنبھالنے کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔ قبائلی بزرگوں سے جرگہ کرنا اور متاثرین کے لیے مالی مدد کا اعلان کرنا، یہ حکومت اور فوج کی عوام دوست پالیسی کا حصہ ہے۔ یہ اقدامات اس بات کا اظہا ر ہیں کہ ریاست اپنے شہریوں کی حفاظت اور بھلائی کو اہمیت دیتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ قبائل میں امن کے زیادہ وسیع، دوررس اور بہتر امکانات کو بھی بروئے کار لانے کی کوشش کی جائے۔ عوام پر ہر ممکن طریقے سے واضح کیا جائے کہ دشمن عناصر کے خلاف کارروائیوں میں عوام کا تعاون بہت ضروری ہے۔ اس کا ادراک ضروری ہے کہ عوام کے جان ومال کو پہنچنے والا غیر ارادی نقصان بھی ملک کی سلامتی کے چیلنج کا حصہ بن سکتا ہے۔ عوام کو بھارت کی جارحانہ سرگرمیوں اور سازشوں سے بھی باخبر رکھنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو سمجھایا جائے کہ دشمن کی زبان کا کیا مطلب ہے اور وہ ہمارے داخلی انتشار سے کس قسم کے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
دراصل بھارت کو پاکستان کے ہاتھوں لگنے والے شکست کے دھچکے کے بعد، مودی حکومت خوف اور جھوٹ پر مشتمل پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ بھارتی آرمی چیف بھی بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بھارت اب بھی طاقتور ہے اور باہر کی دنیا کو بھی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ سرحد پار محدود کارروائیاں کر سکتا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ کہ دشمن کے خلاف سخت کارروائی اب بھارت کا نیا معمول ہے، دراصل ایک خطرناک کوشش ہے جس سے خطے میں مزید بدامنی پھیل سکتی ہے اور چھوٹے واقعات بھی بڑی لڑائی کا سبب بن سکتے ہیں۔ بھارتی آرمی چیف کے بے بنیاد دعوے ریت کے محل سے مختلف نہیں تاہم یہ بات اہم ہے کہ وہ جدید جنگی ہتھکنڈوں پر زور دے رہے ہیں اور جاسوسی اور درست حملے کی صلاحیت کو زیادہ مؤثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ پاکستان کے عوام اور اس کی افواج کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔ اب پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دفاعی نظام کو مضبوط کرے، خاص طور پر ڈرون حملوں سے بچاؤ، برقی جنگ اور سائبر جنگ کی صلاحیتوں میں تیزی لائے۔ ہمیں اپنے جواب کو قابلِ یقین، بروقت اور متناسب بنانا ہوگا، اور بھارتی دعوؤں کو سیٹلائٹ تصاویر اور دیگر ثبوتوں سے چیلنج کرنا ہوگا۔ بھارت جس طرح منفی پروپیگنڈے کی مدد سے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کا سفارتی اور قانونی سطح پر مضبوط جواب دینا چاہیے۔ سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہاٹ لائنز کو بہتر بنانا اور فوجی سطح پر خفیہ رابطے قائم رکھنا بھی بہت ضروری ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار صورت حال سے بچا جا سکے۔ بہرحال بھارت اس وقت اپنی ناکامی چھپانے اور اندرونی سیاسی استحکام حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ وقت حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو داخلی جنگوں میں الجھانے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے جسے آپریشن سندور کے جاری رہنے سے تعبیر کیا جا رہا ہے لیکن ان حرکتوں سے خطے میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے دفاعی نظام کو مضبوط کرے، اطلاعاتی اور سفارتی میدان میں برتری حاصل کرے، اور بھارت کی نئے معمول کی کوشش کو اس کے لیے مہنگا اور خطرناک ثابت کرے۔
پاکستان کو اندرونی سازشوں، سیاسی جھگڑوں، معاشی مشکلات اور بیرونی دشمنوں کی مشترکہ یلغار کا سامنا ہے اور ایسے میں اندرونی انتشار برپا کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ بدقسمتی سے، کچھ اندرونی مذہبی عناصر بھی اس کھیل کا حصہ بن رہے ہیں اور وہ ریاست اور فوج کے خلاف گمراہ کن ویڈیوز اور جھوٹے بیانیوں کے ذریعے دشمن کی زبان میں غلط باتیں پھیلا رہے ہیں۔ اس نازک موڑ پر، ریاست اور اس کے اداروں کو ملک کی سلامتی، بقا اور عوام کی حفاظت کے لیے فوری اور بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ، عوامی سطح پر ایسے شعور یعنی سمجھ بوجھ کی سخت ضرورت ہے جو حقائق کو پرکھ سکے اور دشمن کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کر سکے۔ بڑھتی ہوئی لسانی تفریق، زبان یا علاقے کی بنیاد پر اختلافات کو صرف تب ہی روکا جا سکتا ہے جب قوم اپنے مشترکہ مفادات اور بقا کے لیے ایک آواز بن کر کھڑی ہو۔ اس موقع پر ارباب اختیار کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ اپنی صفوں میں شامل جرائم پیشہ عناصر، مجرموں کے سرپرستوں اور دہشت گردوں کے حامیوں نیز بدعنوان اور عوام کے ساتھ دشمنی برتنے والے افراد کے کڑے محاسبے کا کوئی نظام بھی تشکیل دیں کیوں کہ بعض حکام کے مظالم سے صرفِ نظر نہیںکیا جاسکتا۔ افسران کی تربیت کا ایک جامع نظام قائم ہونا چاہیے جو کہ انھیں آخرت کے احتساب اور اپنی ذمہ داریوں کی درست طورپر ادائیگی جیسی صفات سے آراستہ کر سکے۔ بدعنوان افراد ریاست اور عوام کے تحفظ کا فریضہ کماحقہ انجام نہیں دے سکتے۔