تحریر: محمد انیس رشید
٤ مئی ٢٠٢٥ء بروز اتوار ہندوستان کے ایک بڑے عالم دین حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کا انتقال ہوگیا۔ سورت (گجرات) کے قصبہ کوساڑی میں آپ کی پیدائش ١٣٧٠ھ مطابق ١٩٥٠ء میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام محمد اسماعیل بن محمد ابراہیم تھا۔ آپ کا خاندان شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کا عقیدت مند تھا اور پورے خاندان کا حضرت سے بڑا گہرا تعلق اور لگاؤ رہا ہے۔ آپ کی پیدائش کے دو برس بعد آپ کے خاندان نے کوساڑی کو خیرباد کہہ دیا اور قریبی بستی ”وستان” کو بود و باش کے لیے چن لیا۔ اس لیے آپ وستانوی کہلائے اور آپ کے نام کے ساتھ وستانوی لکھا جاتا ہے۔
آپ نے حفظ قرآن مجید اور ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے مختلف مدارس اور اساتذہ کرام سے حاصل کی۔ اس کے بعد ١٩٦٤ء میں گجرات کے مشہور مدرسہ فلاح دارین میں داخلہ لیا اور مسلسل آٹھ برس تک وہاں تعلیم حاصل کرتے رہے اور سندِ فراغت بھی وہیں سے حاصل کی۔ پھر مظاہر علوم سہارنپور جاکر مزید علمی تشنگی بجھانے کی غرض سے مولانا محمد یونس جونپوری رحمہ اللہ اور دیگر اساتذہ کرام سے دورہ حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ فراغت کے بعد حضرت نے سورت ہی کے ایک مدرسہ میں چند برس تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد مولانا غلام محمد وستانوی نے پہلی مرتبہ ١٩٧٩ء میں تبلیغ دین کو مقصود بنا کے اکل کُوا (مہاراشٹر) میں قدم رکھا تو اس وقت ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہ ہوگا کہ اس سرزمین کو وہ اتنے بڑے تحفے سے نوازیں گے اور ان کا یہ دینی اور دعوتی سفر ہندوستان کی تاریخ کی ایک عظیم تحریک میں تبدیل ہوجائے گا۔ مولانا کا لگایا ہوا یہ پودا بہت مختصر وقت میں کتنا تناور ہوگیا، اس کا اندازہ مندرجہ ذیل باتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
جامعہ اشاعت العلوم اکل کُوا میں سرکاری امداد اور تعاون کے بغیر دینی ماحول میں عصری علوم کا ایسا شاندار انتظام سننے سے زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ادارہ اپنے حجم اور وسعت کے لحاظ سے کئی اداروں کے برابر ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جامعہ اکل کوا کے ایک ہی احاطہ کے اندر تقریباً پندرہ ہزار طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ایک ہزار سے زیادہ اساتذہ اور عملہ خدمات انجام دے رہا ہے، جن میں درس نظامی کے اساتذہ کے علاوہ کالجوں کے اساتذہ اور پروفیسرز بھی شامل ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں عملہ کے لیے مکانات بنے ہوئے ہیں، جہاں جامعہ اکل کوا کا عملہ اقامت پذیر ہے۔ صرف شعبہ حفظ میں ہزاروں طلبہ ایک ہی عمارت کے اندر قرآن کریم حفظ کر رہے ہیں۔ ان کے اساتذہ کی تعداد بھی طلبہ کی تعداد کے لحاظ سے کافی زیادہ ہے، جو تقریباً ایک سو پچاس کے قریب ہے۔ جامعہ اکل کوا کا رقبہ تقریباً ایک سو ایکڑ ہے۔
جامعہ اکل کوا نے اپنی نگرانی میں سات سو مساجد بنائی ہیں جو ہندوستان بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور جامعہ دو لاکھ سے زیادہ طلبہ کی تعلیمی کفالت کر رہا ہے۔ جامعہ اکل کوا نے ہزاروں طلبہ کو میٹرک، انٹر، بی اے اور ایم اے تک کی تعلیم دلائی ہے بلکہ میڈیکل، انجینئرنگ اور فارمیسی کی تعلیم بھی دلا رہا ہے۔ بہت سے طلبہ ڈاکٹر بن کے نکلے ہیں اور اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، اسی طرح بہت سے انجینئر بھی بن کے نکلے ہیں، جو ہندوستان بھر میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جامعہ اکل کوا کی شاخوں کی تعداد سن کر بھی انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ہندوستان بھر میں اس کی ایک سو سے زیادہ شاخیں ہیں جہاں دینی اور عصری علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ جامعہ اکل کوا کے زیر انتظام دسیوں اسپتال بھی کام کر رہے ہیں۔ ان اسپتالوں کی تعداد تیس سے متجاز ہے۔ روزانہ ہزاروں مریض یہاں سے مستفید ہوتے ہیں اور اپنا علاج مفت کرواتے ہیں۔ اس کا سالانہ بجٹ ڈیڑھ ارب روپیہ (ہندوستانی) ہے۔ یہ سارے اخراجات ہندوستان کے عام مسلمانوں کی مدد اور تعاون سے پورے کیے جاتے ہیں۔ جامعہ اکل کوا کے تحت ایک منفرد ادارہ بھی کام کر رہا ہے، اس ادارے کا نام ہے مرکز البحوث والدراسات فی الطب النبوی (یعنی تحقیقی ادارہ برائے طب نبوی) ایک اور ادارہ بھی جامعہ اکل کوا کے تحت کام رہا ہے، اس کا نام ہے مرکز البحوث والدراسات فی العلوم والتکنالوجی (یعنی تحقیقی ادارہ برائے سائنس وٹیکنالوجی)۔
مولانا غلام محمد وستانوی جب کسی منصوبے کا فیصلہ کرتے تو پوری قوت کے ساتھ اسے عملی جامہ پہنانے کی تگ ودو میں لگ جاتے اور لگتا کہ کوئی ناقابل تسخیر چٹان ہے جسے اپنی جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا یا کوئی پہاڑ ہے جو زمین کے اندر گاڑ دیا گیا ہو۔ جب تک مولانا کا بنایا گیا منصوبہ پوری آب وتاب کے ساتھ پایہ تکمیل تک نہ پہنچتا اس وقت تک مولانا سکھ اور چین کا سانس نہ لیتے۔ مولانا کی ساری کوشش اور جدوجہد کا محور یہ رہا ہے کہ پوری قوم علم دین اور تجوید قرآن سے حصہ وافر اپنے لیے سمیٹ لے۔ مولانا جب کسی جگہ جاتے تو دینی اور اسلامی روایات کی چلتی پھرتی شکل دیکھ کر سکون اور راحت پاتے۔ مولانا جب یکھتے کہ اساتذہ خلوص ومحنت اور لگن سے دین کے کام میں مصروف ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوتا۔ مولانا یتیموں، بیواؤں، مسکینوں، اپاہجوں اور مریضوں کے کام آنے کو اپنے لیے خوش بختی اور سعادت سمجھتے تھے۔ ان کے کام آنے کے لیے مولانا اپنی صحت اور آرام کو بالائے طاق رکھ دیا کرتے اور مسلسل محنت اور مشقت کر کے اور دوڑ دھوپ کر کے ان لوگوں کو تکلیف سے نکالنے کی کوشش میں لگے رہتے۔ بلاشبہ مولانا فولادی عزائم کے حامل انسان تھے اور انسان ہونے کے باوجود فولاد صفت تھے کہ آرام وراحت کو بالائے طاق رکھ کے مخلوق اور خلق خدا کی خدمت کو ہی ترجیح دیتے۔ وہ تکلیفوں، مشقتوں، الجھنوں اور مشکلوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتے تھے بلکہ مشکلات خود مولانا کے آگے ہتھیار ڈال دیتی تھیں۔
مولانا جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا، ضلع نندوربار، ریاست مہاراشٹر (ہندوستان) کے بانی مہتمم تھے۔ آپ دار العلوم دیوبند کے رکن مجلس شوری کے علاوہ مظاہر علوم سہارنپور کے بھی مجلس شوری کے رکن تھے۔ اس کے علاوہ آپ جامعہ عربیہ ہتھورہ باندہ کی مجلس شوری کے رکن بھی تھے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی کی مجالس میں بھی آپ بکثرت حاضری دیا کرتے تھے اور آپ سے ارادت کا تعلق بھی تھا۔ ہندوستان کے مشہور بزرگ حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندوی نے آپ کو خلافت سے نوازا۔ ایک طرف گجرات کا قصائی نریندر مودی ہے جو ہندوستان سے مسلمانوں اور ان کی ساری علامتوں کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے، دوسری طرف گجرات ہی کے مولانا غلام محمد وستانوی تھے جو ہندوستان کے چپے چپے میں اسلام اور مسلمانوں کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کرتے رہے اور اسی کوشش میں آپ اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ مولانا نے پس ماندگان میں تین فرزند اور چھ بیٹیاں چھوڑی ہیں۔