سی سی ڈی نے پنجاب میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کامیاب اور موثر کارروائیوں کے ذریعے نہ صرف اپنی دھاک بٹھا دی ہے بلکہ گزشتہ دو ماہ کے دوران پنجاب میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی ہو گئی ہے۔ جرائم پیشہ افراد آگے آگے اور سی سی ڈی ان کے پیچھے پیچھے ہے۔ بہت عرصے بعد پنجاب کے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ سی سی ڈی کی پیشہ ورانہ کامیابیوں کے بعد یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ اگر کچے کے ڈاکوؤں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہے تو ان کے خلاف سی سی ڈی کو میدان میں اتارنا ہو گا۔ اس کے لیے پنجاب کے علاوہ سندھ حکومت کی طرف سے بھی سی سی ڈی کو خصوصی اختیارات دینے کی ضرورت ہو گی تاکہ کچے کے ڈاکوؤں کے سرپرست پکے کے ڈاکو بھی گرفت میں لائے جا سکیں۔
گزشتہ سال مارچ میں کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ صدرِ پاکستان نے اس آپریشن کی باقاعدہ منظوری دے دی تھی۔ آئی جی پولیس پنجاب نے کچے کے علاقے کی صورتِ حال پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ اس آپریشن میں 11ہزار پولیس اہل کار حصہ لیں گے۔ پتا چلا تھا کہ ڈاکوؤں کے خلاف گرینڈ آپریشن کی کمانڈ پاک فوج کرے گی مگر جانے کیا وجہ ہوئی کہ پاک فوج اور پولیس کا وہ مشترکہ گرینڈ آپریشن شروع نہ ہو سکا۔
پولیس حکام کے مطابق کندھ کوٹ اور کشمور کے کچے کے علاقے میں تیغانی، جاگیرانی، شر، بھیو اور بھنگوار گینگ اب بھی موجود ہیں جنہوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران کچے کے ڈاکوئوں کے ہاتھوں کئی یرغمالی مارے جا چکے ہیں جبکہ ایک دوسری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے دو سال کے دوران یہ ڈاکو 700سے زائد افراد کو اغوا کر چکے ہیں۔ سندھ حکومت اور پولیس کے بلند بانگ دعووں اور تین سو کے لگ بھگ آپریشنز کے باوجود کچے کے مختلف ڈاکو آزادانہ وارداتیں کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ ڈاکو پولیس کے خوف سے آزاد ہو کر وارداتیں کرتے ہیں۔ اب تک 23پولیس اہلکار ان ڈاکوئوں کے ہاتھوں شہید اور اتنے ہی زخمی ہو چکے ہیں جبکہ پولیس نے دو درجن سے زائد ڈاکو ہلاک کرنے کے علاوہ 200سے زائد ڈاکوؤں کو گرفتار بھی کیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں بہت سے افراد ان ڈاکوئوں کی تحویل میں ہیں۔ آزاد ذرائع مغویوں کی تعداد 200کے قریب بتاتے ہیں۔ آزاد ذرائع کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ مذکورہ بالا دونوں ڈویژنوں میں ہر ماہ 20سے 30افراد کروڑوں روپے تاوان ادا کر کے رہائی حاصل کرتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔
کچے کے ڈاکو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ان جدید ہتھیاروں کی موجودی کے باعث صرف پولیس کا ان ڈاکوئوں کے ساتھ مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ کچے کے علاقے کے تین اطراف پولیس کے بے شمار تھانے اور چوکیاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پاک فوج کی کشمور چھاؤنی، پنوں عاقل چھائونی اور ڈیرہ بگٹی چھائونی بھی ہے۔ اس کے باوجود یہ جدید ترین اور خطرناک اسلحہ ان ڈاکوئوں تک کیسے پہنچا جس میں راکٹ لانچر تک موجود ہیں۔ یہ ڈاکو اتنے دلیر ہیں کہ اپنے ساتھیوں کو چھڑوانے یا دہشت قائم رکھنے کے لیے پولیس کی چوکیوں اور تھانوں پر بھی حملہ کر دیتے ہیں۔ متعدد پولیس اہلکاران کو بھی یہ لوگ اغوا کر چکے ہیں۔ گزشتہ سال 22اور 23اگست کی درمیانی شب رحیم یار خان کے علاقے میں کچے کے ڈاکوؤں نے حملہ کر کے 12پولیس اہلکاروں کو شہید اور 8کو زخمی کر دیا تھا۔
ریاست کے اندر ریاست بنا کر یہ ڈاکو ریاستی رٹ کو ہی چیلنج نہیں کر رہے بلکہ پولیس اور پاک فوج کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں۔
اپریل 2016میں کچے کے چھوٹو گینگ نے 22پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا تھا۔ جوابی کارروائی میں سات پولیس والوں کی شہادت کے بعد اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے فوج سے مدد حاصل کی اور یہاں ”ضربِ آہن” کے نام سے گرینڈ آپریشن شروع کیا گیا جس میں ڈاکوئوں کے سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو کے خلاف ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوئے تھے۔ جس کے بعد چھوٹو نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اس کے بعد کچے میں ڈاکوؤں کی دہشت کا وقتی طور پر تو خاتمہ ہو گیا مگر یہ سکون صرف ایک سال برقرار رہا اور چھوٹو گینگ کی باقیات سمیت مزید گروہ نئے ناموں سے سامنے آ گئے۔ 2019اور 2021میں بھی ڈاکوؤں کے خلاف کامیاب آپریشنز کیے گئے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپریشن کے دوران ڈاکو بڑی تعداد میں علاقے سے فرار ہو جاتے ہیں اور بعد میں منظم ہو کر پھر کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ ڈاکو اس قدر طاقتور نہیں ہیں کہ سی سی ڈی اور پنجاب پولیس کی مشترکہ کوشش کے سامنے ٹھہر سکیں۔ ان کے خلاف اگر سی سی ڈی اور پنجاب پولیس مل کر آپریشن کریں تو یہ گرینڈ آپریشن یقینا کامیاب ہو جائے گا لیکن اصل مسئلہ آپریشن کے بعد ڈاکوئوں کو منظم ہونے سے روکنا ہے۔ ان کا کچے کے علاقے میں دوبارہ داخلہ روکنا ہی اصل چیلنج ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ ڈاکو اپنی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر کچے کے علاقے ہی کو کیوں منتخب کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دریائے سندھ جوں جوں جنوب کی جانب بڑھتا ہے اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جس کی وجہ سے پانی کی روانی سست ہو جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب کے قریب وسعت کی وجہ سے یہ دریا کئی ندی نالوں میں منقسم ہو جاتا ہے جن کے درمیان کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے نمودار ہو جاتے ہیں۔ ان جزیروں تک رسائی ریتلی زمین اور سڑکوں کی عدم موجودی میں انتہائی دشوار ہو جاتی ہے۔ یہی مشکل ڈاکوئوں کے لیے آسانی بن جاتی ہے۔ وہ یہاں پناہ گزیں ہو کر پولیس کی پہنچ سے بچے رہتے ہیں اور وقت پڑنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ محض بیس سے تیس کلو میٹر کا علاقہ ہے جہاں دریائے سندھ کا پانی سارا سال موجود رہتا ہے مگر پلوں کی عدم موجودی کے باعث ان جزیروں میں ڈاکوؤں کی پناہ گاہوں تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔
کامیاب آپریشن کر کے اگر یہاں سے ڈاکوئوں کو نکال بھی دیا جائے تو کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ یہاں پہنچ جائیں گے۔ مستقبل میں ڈاکوئوں کی رسائی سے ان جزیروں کو دور رکھنا ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہوگا؟ اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومتی زعماء کو سر جوڑ کر سوچنا ہو گا۔ اس عفریت سے نجات کا مستقل حل نکالنا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے سی سی ڈی یوں بھی موثر ثابت ہوگی کہ اکثر ڈاکو جہنم واصل ہو کر دوسروں کے لیے نشانِ عبرت ثابت ہوں گے۔ جہنم کا ایندھن بننے والے ڈاکوؤں کی باقیات دوبارہ سر اٹھانے سے پہلے کئی بار سوچیں گی۔