پاکستان کے معاشی مسائل اور سود

گزشتہ دنوں پلاننگ کمیشن نے ملکی معیشت کی دس مشکلات کا ذکر کیا جو معیشت کو کسی طور پر آگے بڑھنے نہیں دے رہیں، جن میں توانائی، تعلیم و صحت کے مسائل شامل ہیں۔ برآمدات میں تھوڑا سا اضافہ ہوتا ہے تو درآمدات بڑھ جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تجارتی خسارہ ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ ٹیکس بیس محدودیت کا شکار ہے۔ بدعنوانی، چوربازاری اور کرپشن ہر جگہ موجود ہے اور گورننس کا فقدان ہے۔ بجلی و گیس کے بڑھتے ہوئے بل ایک الگ دردِ سر ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ درآمدات میں ہم وہ کچھ خرید رہے ہیں جو ملک میں تیار ہو سکتا ہے۔ چلیے تیل کی درآمدات تو قابلِ قبول ہیں، پام آئل کی درآمدات بھی تسلیم، لیکن کیا کیا جائے کہ ٹافی، بسکٹ، پنیر، مکھن، بچوں کی غذائیں اور اب پالتو جانوروں کی غذائیں بھی درآمد کی جا رہی ہیں۔ ہر قسم کی چھوٹی یا قدرے بڑی مشینری جو ہم خود بنا سکتے ہیں، وہ بھی یورپی ممالک سے درآمد کر رہے ہیں۔ کھاد، زرعی ادویات، مشینریاں، کاریں، موبائل فون اور بے شمار اشیاء جو اس وقت ملک میں تیار کی جا سکتی ہیںجبکہ ہم پر معاشی بوجھ بھی ہے اور زیادہ تر درآمدات ان ممالک سے ہو رہی ہیں جو اس وقت صنعتی طور پر ترقی یافتہ ہیں اور اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ ایسے میں لازم تھا کہ اور نہیں تو کم از کم اہل غزہ کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے ان تمام درآمدات کا متبادل ملک میں تیار کرتے تو پاکستان کے معاشی مسائل بھی حل ہو جاتے، کیونکہ درآمدات پر اربوں ڈالر ملک سے باہر جاتے ہیں۔

ملک میں توانائی کا بحران شدید ہوتا جا رہا ہے، یہاں تک کہ صنعت کاروں کی سانسیں بجلی کے بل میں اٹک گئی ہیں اور وہ کارخانے بند کرنے پر مجبور ہو کر دبئی جا کر رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ تعلیم کا شعبہ بے انتہا کمزور ہو چکا ہے، یہاں تک کہ نوجوان ایم بی اے کی ڈگری لے کر بے روزگار ہیں۔ ملک میں ایسے پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے جس میں میٹرک کی سطح تک ہنر کی تعلیم دی جاتی ہو۔ ملک میں شائع ہونے والی رپورٹس بتاتی ہیں کہ مافیاز، کمزور گورننس اور اس کے علاوہ کرپشن نے ملکی نظم و نسق کا ڈھانچہ تباہ کرکے رکھا ہوا ہے۔ کرپٹ مافیا تو اب اتنا بے باک ہو چکا ہے کہ اپنا حق سمجھ کر، چائے پانی سمجھ کر، کیا کریں، اس کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا کہہ کر رشوت لیتا ہے اور دینے والے بھی کم یا زیادہ یہ کہہ کر رشوت دے رہے ہیں کہ کیا کریں، اس کے بغیر کام نہیں بنتا، ان کی محنت یا خدمت کا صلہ سمجھ کر پیسے دیے جا رہے ہیں جبکہ یہ سب باتیں چل رہی ہوں تو ملک کیسے ترقی کرے گا؟ جہاں تک تعلیم کی بات ہے تو اس پر سرمایہ کاری کا رخ اب بھی موڑ دیا جائے۔ بڑے بچوں کی تعلیم کو کلاس روم سے نکال کر تعمیراتی کاموں، ورکشاپس، فیکٹریوں، کاٹیج انڈسٹریز، یہاں تک کہ نجی دفاتر اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر میں تربیت دی جائے تاکہ وہاں سے وہ ہنر ہاتھ میں لے کر باہر نکلیں۔

عام آدمی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ان دنوں بھاری بھرکم بلوں کا ہو چکا ہے۔ اب تنخواہ کا نصف کرایہ مکان اور باقی نصف بجلی کے بلوں میں صرف ہو رہا ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے کہنے پر جس طرح بجلی کے ٹیرف بڑھا رہی ہے، ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ چند ہی سالوں میں بجلی کے بلوں کی مالیت اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ ادھر تنخواہ ملی، ادھر بھاری بھرکم بجلی کا بل ہاتھ میں تھاما اور ساری کی ساری رقم یا اس کا بہت بڑا حصہ بجلی کے بل کی نذر ہو گیا۔ ظاہر سی بات ہے اب کھانے پینے کا خرچ کہاں سے آئے گا؟ شاید ایسی ہی صورت حال میں مغرب کے سیانوں نے گھر کی خواتین کو بھی حصول رزق کے لیے گھروں سے نکلنے اور مردوں کے ”شانہ بشانہ” محنت مزدوری کرنے کی صلاح دی تھی جس نے وہاں کی زن کو نازن کرکے چھوڑا۔اب ہماری باری ہے۔ پچھلے ادوار میں پاکستان میں گیس کے بل کم آتے تھے کہ گیس ہمیں باہر سے نہیں منگوانا پرتی تھی ، اب گیس کے بل بھی بھاری بھرکم آرہے ہیں،گیس کی لوڈشیڈنگ کی بھی بات ہو رہی ہے۔ ملک کو گیس کی قلت کا سامنا ہے۔ اگرچہ ملک میں تقریباً ہر علاقے میں گیس کے ذخائر موجود ہیں، لیکن ان کو نکالنے کی سستی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ سنا ہے کہ چکوال کے قریب کسی مقام سے تیل اور گیس کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ اسی پر تھوڑی سرمایہ کاری کر لیں تاکہ ملک میں مزید تیل اور گیس نکالنے کا کام شروع ہو جائے اور زرمبادلہ کی بچت ہو۔ پلاننگ کمیشن کو اس بات کو ترجیح دینی چاہیے۔

پاکستان میں ہر طرح کے مسائل کھڑے کرنا نہایت آسان ہے۔ یہاں پر فائلوں کو اس وقت پہیے لگتے ہیں جب اچھا خاصا نذرانہ اس پر نچھاور کر دیا جائے۔ بصورت دیگر فائل اور مسائل دونوں برسوں ایک میز سے دوسری میز کا چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ دادا سے بیٹا اور پھر اس کا بیٹا یعنی دادا سے پوتوں تک فائل پہنچ جاتی ہے اور بالآخر مسئلہ ناقابلِ حل قرار دے کر فائل خارج کر دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے بار بار پاکستان کو معاشی حوالے سے سخت مشکل میں ڈالا۔ کبھی ڈیفالٹ سر پر منڈلانے لگا۔ وہ ہے ‘قرض اور سود’، جس نے پاکستانی کرنسی کو جکڑ رکھا ہے۔ یہ روز بروز اسے کمزور کیے جا رہا ہے۔ روپے کی قدر گھٹتے گھٹتے اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب ایک ایک پیسے کی قدر ہوتی تھی، پھر اٹھنی بھی بچوں کے لیے قابلِ قبول تھی اور فقیر تو چونی بھی قبول کر لیا کرتے تھے۔ پھر جلد ہی پانچ روپے کا سکہ آیا، کچھ دنوں بعد وہ بھی غائب ہو گیا۔ اب تو بچے بھی 100روپے سے کم روزانہ کی جیب خرچی نہیں لیتے۔

بہرحال پاکستان کے معاشی مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے کئی عشرے بیت گئے۔ نئی صدی کے آغاز سے قبل حالات سنبھل سکتے تھے اور سنبھل رہے تھے کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کے لیے حالات بدتر ہوتے چلے گئے اور یہ نائن الیون دراصل ہماری معیشت پر برپا ہو گیا۔ ان 25سالوں میں ابھی تک اس کے منفی اثرات چل رہے ہیں۔ کئی سو ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا، ہزاروں افراد شہید ہو گئے۔ پہلے قرض لینا، پھر سود کے لیے بھی قرض لینا، پھر سود پر سود ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینا۔ 2005ء میں قرضوں سے نجات کی ایک رپورٹ مرتب ہوئی تھی۔ پلاننگ کمیشن کو چاہیے کہ اس رپورٹ کا دوبارہ جائزہ لے اور سود پر قرض لینے سے جان چھڑا لے، کیونکہ سود ہی ہماری معیشت کو دیمک کی طرح کھائے جا رہا ہے۔ اس مسئلے پر ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے۔ جیسے ہی سود سے چھٹکارے کا اعلان کریں گے، اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت ہمارے ساتھ ہو جائے گی، ان شاء اللہ۔