تحریر: محمد یاسر عبداللہ
حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب رحمہ اللہ سے اجمالی طور پر اتنا تعارف تو تھا کہ وہ مولانا سید حامد میاں رحمہ اللہ (تلمیذ وخلیفہ مجاز شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ وبانی جامعہ مدنیہ، لاہور) کے صاحبزادے، مورخ اسلام حضرت مولانا سید محمد میاں رحمہ اللہ (مولّفِ کتاب: علمائے ہند کا شاندار ماضی ودیگر کتبِ مفیدہ) کے پوتے اور برصغیر میں سادات کے ایک معروف اور نامور خانوادے کے چشم وچراغ ہیں۔
چند برس قبل تک ان سے ملاقات یا انہیں سننے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ کراچی آمد کے موقع پر ان کے ایک میزبان برادرِ مکرم مفتی سلمان یسین زید مجدہ (استاذ الحدیث ورفیق دار الافتاءمعہد الخلیل الاسلامی، بہادر آباد، کراچی) ہوتے تھے، برادر موصوف کو اللہ تعالی نے اکابر ومشائخ کی مزاج شناسی اور سلیقے سے ان کی خدمت کا خاص ذوق عطا فرمایا ہے، اس لیے ان کی میزبانی کی بدولت وقتاً فوقتاً ملک بھر کے اہلِ علم ومشائخ کی زیارت وملاقات اور ان سے استفادہ کا موقع ملتا رہتا ہے۔ حضرت مولانا کراچی آمد پر اکثر صاحبزادیوں کے ہاں قیام پذیر ہوتے اور آخری سالوں میں کبھی برادرِ مکرم کے گھر پر قیام فرماتے تھے۔
ایک بار حضرت مولانا رحمہ اللہ برادرِ محترم کے ہاں تشریف لائے تو جامع مسجد نجم (شہید ملت روڈ، کراچی) میں بعد عشاءاصلاحی بیان فرمایا، اس موقع پر پہلی بار مولانا کو براہِ راست سننے کا اتفاق ہوا، لگ بھگ بیس پچیس منٹ کا خطاب تھا، لیکن سچ پوچھیے تو مولانا کے پرکشش اندازِ بیان اور گہرے مطالعہ ومشاہدہ سے قلب ودماغ متاثر ہوئے۔ بعد ازاں گزشتہ برس معہد الخلیل الاسلامی کی سالانہ تقریبِ دستار بندی کے موقع پر حضرت مولانا کے درسِ صحیح بخاری میں شرکت میسر ہوئی، ان کا درس مروجہ اسلوب سے جداگانہ تھا، مولانا نے صحیح بخاری اور اس کی آخری حدیث سے متعلق روایتی مباحث سے زیادہ تعرض نہیں فرمایا، بلکہ باب وحدیث کے نفسِ مطلب پر اکتفا کرتے ہوئے زیادہ تر روئے سخن معاشرتی امور کی جانب رہا، ممکن ہے غیر روایتی انداز ہونے کی بنا پر بہت سے حاضرین کو یہ انداز نامانوس لگا ہو، لیکن مولانا کے بیان کردہ نکات اہم اور مفید تھے۔ ان دو خطابات کے علاوہ چند نجی مجلسوں میں ان کے قریب بیٹھنے اور گفتگو سننے کے مواقع ہاتھ آئے اور ان کی سنجیدگی ومتانت، حکمت وبصیرت، خودداری وغیرت، علمی گہرائی، عمیق مشاہدہ وتجربہ کا کچھ کچھ اندازہ ہوا۔
حضرت مولانا حدیث میں اپنے والد مکرم مولانا سید حامد میاں رحمہ اللہ کے شاگرد اور انہی سے تربیت پائے ہوئے تھے۔ مولانا حامد میاں صاحب کو ان کے عظیم استاذ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے بہت کم عمر (غالبًا اکیس برس) میں مجازِ بیعت فرما دیا تھا اور مولانا کو ان کے والد محترم نے تزکیہ وسلوک میں اجازت دی تھی۔ مولانا کی غالب توجہ تو درسِ حدیث اور ادارہ کی جانب تھی، لیکن اس کے ساتھ اصلاح وارشاد کا سلسلہ بھی قائم کیے ہوئے تھے۔ مزید بر آں میدانِ سیاست سے بھی وابستہ تھے، زندگی کے آخری عرصے میں جمعیت علمائے اسلام کے تحت صوبہ پنجاب کی امارت انہیں سونپ دی گئی تھی اور علالت کے باوجود وہ اس ذمہ داری کو احسن انداز سے نبھا رہے تھے۔
سیاست کے تعلق سے مولانا کا نقطہ نظر علمی رنگ میں رنگا ہوا تھا اور ان کے طرزِ فکر میں مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی حجة اللہ البالغة کا فکر وفلسفہ جھلکتا تھا، اندازہ ہوا کہ سیاست کے خارزار میدان میں مروجہ اسلوب کی بدولت دَر آئی سطحیت سے کوسوں دور اور گہرے غور وتدبر کی روشنی میں مضبوط بنیادوں پر قائم اہلِ علم اب بھی موجود ہیں، اس لیے طالب علمانہ وجدان کو ان کی وفات اس میدان سے جڑے علمی طبقے کا بڑا خلا محسوس ہوتا ہے۔
جامعہ مدنیہ جدید (رائے ونڈ روڈ، لاہور) حضرت مولانا رحمہ اللہ کے زیرِ اہتمام تھا، یہ ادارہ مولانا کی ادارت اور حضرت مفتی محمد حسن مدظلہم جیسے نیک صالح اور مشفق مربّی کے زیرِ سایہ تعلیم وتربیت کا فیضان عام کر رہا ہے۔ اس ادارہ کے اساتذہ وطلبہ اور متعلقین کے لیے مولانا کی رحلت بڑا حادثہ ہے، خاص طور پر برادرِ عزیز مولانا عکاشہ میاں حفظہ اللہ کے لیے یہ گہرا صدمہ ہے اور ان کے کندھوں پر کم عمری میں بڑی ذمہ داری منتقل ہوئی ہے، لیکن عربی محاورہ کبّرنی موت الکبراء کے مطابق تجربہ ومشاہدہ ہے کہ بعض اوقات چھوٹوں کی خداداد صلاحیتیں بڑوں کی زندگی میں دَبی رہتی ہیں اور ان کی رحلت کے بعد ابھر آتی ہیں۔ بڑوں کا سایہ اٹھنے کے بعد جب اللہ تعالی کسی چھوٹے پر ذمہ داری ڈالتے ہیں تو اس کی اہلیت وصلاحیت کو بڑھاتے اور دست گیری فرماتے ہیں۔
اللہ تعالی حضرت مولانا رحمہ اللہ کی کامل مغفرت فرمائے، ان کی حسنات اور گوناگوں خدمات کو قبول فرمائے، ان کے قائم کردہ ادارے کو مزید ترقی عطاءفرمائے، برادرِ عزیز مولانا عکاشہ میاں کو صبر واستقامت عطاءفرمائے اور تائیدِ غیبی کو ان کے شاملِ حال فرمائے، آمین یا رب العالمین!
