شدت سے زندگی میں کبھی اس ضیاع کا احساس نہیں ہوا تھا جتنا اب ہو رہا ہے۔ کروڑوں اربوں کھربوں کے اعداد بھی اس پانی کی قیمت کیلئے کم ہیں جو ہم ایک دن میں ضائع کر دیتے ہیں۔ حکایت ہے کہ کسی درباری نے ہارون الرشید سے پوچھا: اے امیر! اگر آپ صحرا میں اکیلے ہوں اور پیاس کی وجہ سے جان لبوں پر آ چکی ہو، ایسے میں پانی کے ایک پیالے کے عوض آپ کی پوری سلطنت مانگ لی جائے تو کیا آپ دے دیں گے؟ ہارون نے کہا: یقینا دے دوں گا۔ زندگی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اور یاد رہے ہارون الرشید مراکش سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی سلطنت کا مالک تھا۔
کئی سال پہلے کی بات ہے، میرے چچا زاد بھائی نے ایک برتن مجھ سمیت خاندان کے کئی گھروں میں بھجوایا۔ پلاسٹک کا یہ برتن اپنے سائز اور شکل میں ہمارے برتنوں سے بہت مختلف تھا۔ نہ یہ لوٹے جیسا تھا نہ گھڑے جیسا۔ معلوم ہوا کہ یہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں استعمال ہونے والے برتن مُد کی شکل ہے اور کسی صاحبِ دل نے اس عہد کی یاد تازہ رکھنے کیلئے یہ برتن بنوایا ہے۔ اس زمانے کے پیمانوں میں صاع اور مُد کا ذکر احادیث میں بکثرت ہے۔ صاع بڑا پیمانہ تھا اور مد چھوٹا۔ صاع اور مُد دونوں لمبوترے برتن تھے، جن کے پیندے بڑے اور منہ قدرے چھوٹے تھے۔ یہ سیال چیزوں کیلئے بھی پیمانے تھے لیکن اسی کے ساتھ ٹھوس چیزیں مثلا کھجوریں بھی اس سے ناپی جاتی تھیں۔ ایک صاع میں چار مد ہوتے تھے۔ مُد کا برتن دیکھ کر شدید احساس ہوا کہ ہم وضو اور غسل میں پانی کا کتنا اسراف کیا کرتے ہیں۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد پانی سے وضو فرماتے اور ایک صاع سے پانچ مُد تک پانی سے غسل فرما لیتے تھے۔
میں دیکھ کر حیران ہو گیا کہ ایک مد کتنا چھوٹا سا برتن ہے۔ پانی ناپیں تو یہ ایک لٹر سے بھی کافی کم ہے۔ 650ملی لٹر یا اس سے کچھ ہی زیادہ۔ عرب میں پانی کم دستیاب سہی لیکن مدینہ منورہ میں کافی کنویں بہرحال موجود تھے۔ یہ دراصل سبق تھا اس بات کا کہ پانی وافر بھی ہو تب بھی اس میں اسراف نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ بات تعلیمات میں واضح موجود ہے کہ پانی کے اسراف سے بچنا چاہیے۔ ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اس قوم کیلئے بہتے دریا بھی کافی نہیں ہو سکتے جو پانی ضائع کرتی ہے۔ اب ہم ذرا اپنے وضو غسل اور پانی کے دیگر استعمال دیکھ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم دراصل پانی نالیوں میں بہا کر اس کی کمی کا شور مچا رہے ہیں۔ غسل خانوں میں پانی کے نلکے بہتے ہی چلے جاتے ہیں۔ بیسن میں پانی مسلسل جاری رہتا ہے لیکن ہمارا غسل اور وضو پورا ہی نہیں ہوتا۔ برتن دھونے کیلئے بے دریغ پانی بہایا جاتا ہے۔ گاڑیاں دھونے کیلئے قیمتی ترین چیز گٹروں میں ڈالتے ہیں۔ مسجدوں کے وضو خانے پانی کے اسراف کی مثالیں بنے ہوئے ہیں۔ ہم پانی کھول کر کسی اور کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ دعائیں کرتے ہیں کہ یارب!بارش عطا فرما اور انہی لمحات میں کروڑوں لٹر پانی کسی نہ کسی طرح ضائع ہورہا ہوتا ہے۔ یعنی جو پانی عطا کر دیا گیا ہے وہ نالیوں میں بہاتے رہیں اور مزید کی دعائیں مانگتے رہیں۔ یہ بے وقوفی اور نااہلی کی بدترین مثال ہی تو ہے۔دنیا بھر کے سائنسدانوں کی ٹیمیں جتی ہوئی ہیں کہ کائنات میں کسی اور سیارے پر پانی دریافت کر لیں۔ جدید ترین علوم اپنے جدید ترین آلات کے ساتھ کھوج میں ہیں لیکن اب تک کسی سیارے یا ستارے پر پانی کی موجودی یقینی نہیں ہو سکی۔ یقینی ہے تو اسی کرہ ارض پر جسے خلا سے دیکھیں تو نیلا نظر آتا ہے، اس لیے کہ نیلے پانی نے اس کی تین چوتھائی جگہ بھر رکھی ہے۔ خشکی کم اور پانی زیادہ ہے۔ اسی پانی سے زندگی نے جنم لیا اور اسی پانی پر ہر جاندار حتی کہ نباتات تک کا انحصار ہے۔ سائنس نے طے کر دیا ہے کہ پانی ہوگا تو زندگی ہوگی۔ پانی نہیں تو زندگی بھی نہیں۔
دو تین دن پہلے یہ خوفناک خبر پڑھ رہا تھا کہ ہمارے ہمسائے میں کابل وہ پہلا دارالحکومت ہے جو بالکل خشک ہو جانے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ کابل پانی بالکل خشک ہو جانے کی بھیانک صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بے شمار لوگوں کا دن پانی کی تلاش سے شروع ہوتا ہے۔ یہ جدوجہد اگلے دن پر منتقل ہو جاتی ہے اور پھر اس سے اگلے دن پر۔ کم و بیش آدھے سے زیادہ کنویں خشک ہو چکے ہیں۔ کابل کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی، موسمیاتی تبدیلیاں، مسلسل زیر زمین ذخیروں کا استعمال سب نے مل کر شہر کو تشنگی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔ ہندوکش کی برف اور گلیشیرز زمین اور آبی ذخیروں کو بھرا کرتے تھے۔ اب ایک سال میں 44ملین کیوبک فٹ پانی زمین سے نکالا جاتا ہے اور قدرتی وسائل اتنا پانی فراہم نہیں کر سکتے۔ زیر زمین پانی بھی 100فٹ سے زیادہ نیچے چلا گیا ہے۔ یاد ہوگا کہ ایسی ہی خوفناک خبریں کیپ ٹاون جنوبی افریقہ کے بارے میں آتی رہی تھیں۔ 2015سے 2020تک کیپ ٹاون پہلا میونسپل شہر تھا جہاں پانی کا راشن کر دیا گیا اور لوگ تشنگی اور خوف کے بیچ زندہ تھے۔ 2017میں ڈے زیرو کی اصطلاح بنا لی گئی تھی جس کا مطلب تھا کہ کیپ ٹاون کے پانی سپلائی ڈیم کی گنجائش ساڑھے 13فیصد رہ گئی ہے۔ پانچ سال تک کیپ ٹاون پیاس کی پاتال میں پڑا رہا۔ پھر قدرت کو ترس آیا اور 2020میں وہ بارش ہوئی جس نے ڈے زیرو کو پیچھے دھکیل کر ڈیم بھر دیے۔ کیپ ٹاون اس مکمل تباہی سے بچ گیا جس سے بچانا کسی انسان کے بس میں نہیں تھا۔
اس وقت بھی دنیا کے بعض ملکوں میں پانی کی شدید کمی ہے۔ دنیا کی 25فیصد آبادی اس کمی کا شکار ہے۔ کل 25ممالک بتائے جاتے ہیں جنہیں پانی کی شدید ضرورت ہے۔ جمہوریہ کانگو، سینٹرل افریقن جمہوریہ، ایتھوپیا، عراق، چاڈ، نائیجر، یمن، سوڈان اور فلسطین بھی ان ملکوں میں شامل ہیں۔ اس وقت یہ ملک جیسے بھی گزارا کر رہے ہوں، ایک خشک سالی کا سیزن انہیں تباہی کے دہانے پر پہنچا سکتا ہے اور دنیا کی تاریخ میں ایسا کئی بار ہو بھی چکا ہے۔ زندگی کا دار و مدار پانی پر ہونے کی وجہ سے پانی کے تنازعات انسانی تاریخ میں بہت قدیم ہیں۔ قدیم عرب میں کنووں اور ذخیروں پر کتنی ہی لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔ ملکیت پر ہی نہیں، پہلے پانی پلانے پر بھی۔ خواجہ حالی نے جو کہا تھا کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا۔ وہ اس شدید پیاس کا بہت کم بیان ہے جو عرب کے صحراوں میں رہنے والوں کو ہر وقت درپیش تھی۔ یہ بھی شاید حدیث میں ہے کہ آئندہ جنگیں بھی پانی پر ہوں گی۔ آج کی دنیا دیکھ لیں۔ پچھلے دنوں ایتھوپیا میں نیلے نیل پر بننے والے بہت بڑے ڈیم پر ایتھو پیا، سوڈان اور مصر کے درمیان تنازع بہت گرم تھا۔ نیلا نیل پانی کا وہ بڑا دریا ہے جو سفید نیل سے مل کر بڑا دریائے نیل بناتا ہے۔ خود برصغیر میں چین، بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان مسلسل پانی کے جھگڑے جاری رہتے ہیں۔چین نے دریائے برہم پترا پرجسے چین میں یارلنگ زنگ بو کہا جاتا ہے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بنانے کا افتتاح کر دیا ہے۔ 167ارب ڈالر کی رقم سے دنیا کے اس سب سے بڑے ڈیم سے بھارت کوجو خود پانی کی قلت کا شکار ہے پانی کی کمی کا خطرہ ہے۔ یہی دریا آگے بنگلہ دیش میں داخل ہوجاتا ہے اور پھر دریائے پدما میں شامل ہوکر خلیج بنگال میں جاگرتا ہے۔
اگرچہ ہم بھی پانی کی قلت کا شکار ہیں لیکن دنیا کی پیاس کو دیکھیں تو پاکستان اتنے مسائل کا شکار بہرحال نہیں ہے ۔ ہمارا مسئلہ قدرتی نہیں بلکہ انتظامی غفلت بھی ہے اور بڑھتی آبادی کا بوجھ بھی۔ مالک کا کرم ہے کہ پاکستان برف پوش پہاڑوں گلیشیرز جھیلوں ندیوں دریاؤں اور سمندر سے مالامال ہے۔ یہاں بارشیں بھی فراوانی سے ہوتی ہیں۔ ان وسائل کے باوجود اگر ہم پانی کی کمی کا شکار ہیں تو یہ ہماری اپنی نا اہلی اور مجرمانہ غفلت ہے۔ ہم واقعی وہ قوم ہیں جن کیلئے بہتے دریاکافی نہیں ہوتے۔ایک قوم دریا کنارے پیاسی بیٹھی ہو تو مجرم کون ہے؟ فطرت بھر بھر کر آپ پر پانی کے گھڑے انڈیلتی ہو اور آپ کا کٹورا خشک پڑا رہے تو الزام کس کو دیں گے؟