ابوصوفیہ چترالی
1982ء کی بات ہے۔ جنوبی کوریا کا ایک وزیر کویت کے دورے پر آیا۔ یہاں وہ دین اسلام، اس کی تعلیمات اور کویتی مسلمانوں کے اخلاق اور طرز حیات سے کافی متاثر ہوا۔ اس نے کویتی وزراء سے کہا کہ ہے کوئی ایسا شخص جو اپنے آپ کو کوریا کے لیے وقف کر دے؟ کورین لوگ اس دولت سے محروم ہیں اور آپ کے پاس اتنا خوبصورت دین ہے۔ وزراءکیا جواب دیتے۔
کچھ عرصہ بعد یونیورسٹی کے ایک نوجوان پروفیسر کو کورین وزیر کی یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے کہا کہ میں اس کام کے لیے تیار ہوں۔ یہ عظیم شخص گو جسماً تو ہمارے زمانے میں رہتا تھا، لیکن قلب و روح کے اعتبار سے یہ قرون اولیٰ کا مسافر، جو شاید قرون اولیٰ کے قافلے سے پیچھے رہ گیا تھا۔ اس نے لگی بندھی بہترین ملازمت، گھر بار، بیوی بچے، پرتعیش زندگی، غرض سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک انجان ملک میں مستقل قیام کے لیے روانہ ہو گیا۔ جہاں کوئی اس کی جان پہچان نہیں، ملک بھی وہ جس کے باسی کہنے کو تو سات خداوں کے ماننے والے، مگر عملاً سب ملحد، پھر یہ وہیں کا ہوکر رہ گیا۔ اس بات کو 41 برس بیت گئے، مگر اس شخص نے جب دین کے لیے وطن چھوڑا تو واپس اپنے ملک جانے کا خیال بھی دل سے نکال دیا۔ یہ ہے کون اور اس عرصے میں اس نے کیا خدمات سر انجام دیں؟ کیا انقلاب برپا کیا؟ آیئے پڑھتے ہیں:
یہ کویت کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر اور وزارتِ اوقاف سے وابستہ مشہور علمی شخصیت الامام الشیخ الدکتور عبد الوہاب زاہد الحق ہیں۔ بہت بڑی علمی ہستی، اتنی بڑی کہ نوجوانی میں ہی ان کا شمار کبار علماء میں ہوتا تھا۔ جب اسلام آباد میں اسلامی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کی صدارت کے لیے جس شخصیت پر نظر انتخاب ٹھہری، یہ وہی تھے۔ حکومت پاکستان نے ان سے درخواست کی کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن کر قسم الفقہ و الحدیث کو سنبھالیں، کویتی وزارتِ اوقاف کی خواہش تھی کہ وہ ان کے ساتھ کام جاری رکھیں اور الموسوعة الفقہ مرتب فرمائیں۔ سعودی حکومت بھی چاہتی تھی کہ وہ ان کے یہاں تدریس کریں۔ مگر شیخ نے یہ سب کچھ ٹھکرایا اور دین کی دعوت کے کٹھن سفر پر روانہ ہوئے۔ کوریا میں نہ ان کا کوئی جاننے والا تھا اور نہ ہی وہ کورین زبان جانتے تھے۔ کوریا پہنچ کر انہوں نے پہلے مقامی زبان سیکھنے پر توجہ دی، پھر وہاں کے ماحول کو سمجھا۔ لوگوں کے عقائد و رسومات اور ذہنی خیالات کا ادراک کر لیا۔ معلوم ہوا کہ یہاں کے بیشتر لوگ سات خداوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ عیسائی بھی تھے اور ملحدین کی بھی کمی نہیں تھی۔ شیخ نے تفسیر اور حدیث کا علم جامعہ ازہر سے حاصل کیا تھا، جبکہ وہ الفقہ المقارن Comparative jurisprudence پر پی ایچ ڈی تھے۔
جب شیخ نے کوریا میں دعوت کا کام شروع کیا تو اس وقت وہاں مسلمانوں کی تعداد انگلی پر گنی جاسکتی تھی۔ لیکن اب ان کے ہاتھوں ہزاروں کورین مسلمان ہوچکے ہیں۔ انہوں نے نو مسلموں کو بھی اسلام کی دعوت کے کام پر لگا دیا۔ دارالحکومت سیو¿ول میں جامع مسجد صدیق کی بنیاد رکھی اور پھر اسے نور اسلام کے پھیلانے کا مرکز بنا دیا۔ پھر مختلف شہروں میں کئی مساجد کے ساتھ اسلامک سینٹرز قائم کیے۔ شیخ عبد الوہاب نے کورین زبان میں اسلام کے تعارف پر کئی کتابیں لکھیں۔ ان کی ایسی کتب کی تعداد 55 ہے۔ کوریا میں سیٹل ہونے کے بعد ایک مرتبہ مصر کے بزنس ٹائیکون عبد اللطیف الشریف نے الشیخ عبد الوہاب کو آفر کی کہ وہ کوریا میں ان کے بزنس پارٹنر بن جائیں۔ پرافٹ کا نصف حصہ انہیں ملے گا۔
یوں ملین ڈالر بیٹھے بٹھائے انہیں مل جائیں گے لیکن شیخ نے کہا کہ عبد اللطیف! میں نے عرب کی سرزمین، اچھی نوکری اور سب کچھ مال کے لیے نہیں چھوڑا تھا، مجھے مال کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں یہاں صرف اسلام کی دعوت کے لیے مقیم ہوں۔ مجھے کورین لوگوں کو جہنم سے بچانے کی فکر ہے۔ میں کاروباری جھنجھٹ میں نہیں پڑ سکتا۔ یہ سن کر عبداللطیف بہت خوش ہوئے اور کہا کہ میں آپ کی اس میدان میں کیا مدد کرسکتا ہوں؟ شیخ نے کہا کہ دو شہر ایسے رہ گئے ہیں، جہاں کوئی مسجد نہیں ہے۔ مجھے دو مسجد بنوا کر دے دیں۔ عبداللطیف نے اسی وقت دونوں مساجد کی تعمیر کے تمام اخراجات شیخ کو دے دیئے۔ ایک مسجد ابو بکر الصدیق کے اور دوسری عمر بن الخطاب کے نام سے قائم ہوئی۔ اب دونوں کا شمار کوریا کی مشہور مساجد میں ہوتا ہے۔ شیخ ابھی تک کوریا میں 80 مساجد اور درجنوں اسلامی سینٹر بنا چکے ہیں۔ غیر رسمی مساجد یعنی مصلوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
واضح رہے کہ 1930ءمیں پارک جے سنگ Park Jaeseoung پہلا کورین شخص تھا، جو مسلمان ہوا تھا اور اب وہاں مسلمانوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ شیخ کا کہنا ہے کہ مجھے کورین نو مسلموں پر فخر ہے۔ یہ قیامت کے دن میرے آگے ہوں گے۔ یہی میرا سرمایہ ہیں۔ میں نے ان کے لیے عقائد کی درستی کے لیے 23 کتابیں لکھی ہیں۔ الدکتور عبد الوہاب زاہد الحق کا اصل تعلق شام کے تاریخی شہر حلب سے تھا۔ جہاں وہ 1941ءمیں پیدا ہوئے۔ 1984ءسے وہ کوریا میں مقیم اور اسلام کی روشنی پھیلاتے رہے۔ وہ کوریا کے مفتی اعظم اور سیوول کی مرکزی مسجد ابو بکر صدیق کے امام و خطیب تھے۔ ان کے سات بیٹے ہیں، پوتوں کی تعداد 35 ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مسلم ممالک کی طرف سے اسلام کے نشر واشاعت میں نہایت سستی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ ان کی اس فریضے پر کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ جس پر وہ قیامت کے دن جوابدہ ہوں گے۔
کوریا میں مقیم اور جیجو شہر کی جامع مسجد کے امام ہمارے دوست قاضی ثاقب الاسلام کے مطابق شیخ عبدالوہاب علامہ محمد یوسف بنوری، مولانا شیخ سلیم اللہ خان اور مولانا ابو الحسن ندوی رحمہم اللہ کے شاگرد تھے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ سے گہرا تعلق تھا۔ حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ نے آپ کے گھر حلب میں ایک ماہ قیام فرمایا تھا۔
گزشتہ دن فیس بک کھولی تو ایک عرب پیج سے حضرت شیخ کی وفات حسرت آیات کا اعلان نظر سے گزرا، گوگل پر سرچ کیا تو اس سانحہ ارتحال کی تصدیق ہوگئی۔ 84 سال کی عمر میں قرونِ اولیٰ کا بچھڑا ہوا یہ مسافر اپنی منزل پر پہنچ گیا۔ 41 سال تک وہ کوریا میں نگر نگر حق کی صدا لگاتا رہا اور بے شمار لوگوں کو اپنے رب سے جوڑ کر خود بھی اللہ کے حضور حاضر ہوگئے۔ اللہ جل شانہ ان کی مساعی جمیلہ شرفِ قبولیت عطا فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل و اجر جزیل سے نوازے۔ پوری امت ان کے سوگواروں میں شامل ہے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین۔
