مضمون :مولانا اللہ وسایا
بزرگ عالم دین مولانا قاری قیام الدین صاحبؒ پنڈدادن خان ضلع جہلم میں 9مئی 2025ءکو واصل بحق ہوگئے۔ اناللہ و اناالیہ راجعون!
کاچھو کرنال (موجودہ ہریانہ انڈیا) میں راجپوت برادری کے حضرت قاری سراج الدینؒ تھے۔ پاکستان بننے کے بعد کچھ عرصہ بھکر میں قیام کیا اور اپنے کاروبار میں مصروف رہے۔ آپ بڑے پختہ قاری تھے اور نظریاتی رہنما تھے۔ حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے بیعت کا تعلق تھا۔ جمعیة علماءہند کے اکابر کے دل و جان سے شیدا و فدا تھے۔ اتنے ذہین اور فطین تھے کہ مولانا ابوالکلام آزادؒ کی تقریریں انہیں یاد تھیں کبھی موج میں آکر وہ تقریریں دُہراتے تو ایک مسحورکن ماحول قائم کر دیتے۔ بزرگوں کی روایات انہیں ازبر تھیں، وہ تاریخی شخصیت تھے۔ بھکر، میانوالی، خانقاہ سراجیہ، مولانا محمد رمضانؒ، مولانا محمد عبداللہؒ، حضرت مولانا عبداللہ ثانیؒ، حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ کے خواجہ تاش تھے۔ جمعیة علماءاسلام میانوالی کے امیر بھی رہے۔ 1970ءکے الیکشن میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ان کا دینی حلقہ و عوام میں بے پایاں اثر و رسوخ تھا۔ عمر بھر عوام اور برادری کے فیصل رہے۔ دینی حلقہ کی درخواست پر بھکر سے کلورکوٹ آگئے۔ حفظ، قرات کا معیاری مدرسہ حسینیہ قائم کیا یہاں قیام کے دوران 1949ءمیں قاری قیام الدین پیدا ہوئے۔
آپ نے حفظ اپنے والد گرامی سے کیا۔ سلانوالی ضلع سرگودھا میں صرف ونحو پڑھی، باقی کتب دارالعلوم کبیر والا میں مکمل کیں۔ تخصص کے لیے خیرالمدارس داخلہ لیا۔ حضرت مولانا مفتی محمد عبدالستارؒ کی اجازت سے حضرت قاری رحیم بخشؒ کے ہاں گردان میں داخلہ ٹیسٹ کے لیے گئے توصبح سے شام تک سولہ پارے سنا دیے۔ حضرت قاری صاحبؒ نے منزل کی پختگی پر بجائے گردان کے پہلے دن قرات میں داخل فرما لیا۔ قرات کی تعلیم کے ساتھ ساتھ حضرت قاری رحیم بخشؒ نے مسجد دار السلام ملتان کی امامت وخطابت پر مامور کر دیا۔ دو سال بعد حضرت قاری رحیم بخش صاحبؒ کے چچا حافظ محمد علی پانی پتیؒ اور دیگر برادری نے جو پنڈ دادن خان میں تھے‘ تدریس امامت و خطابت کے لیے قاری اور عالم دین کا تقاضہ کیا۔ قاری رحیم بخشؒ استاد نے اپنے شاگرد قاری قیام الدینؒ سے فرمایا کہ آپ پنڈدادن خان چلے جائیں۔ پانی پت کی میری آرائیں برادری ہے، یہ آپ کو ٹکنے نہیں دیں گے۔ لیکن آپ نے آخر تک ہلنا نہیں۔ قاری قیام الدینؒ یہاں تشریف لائے حفظ وقرات کا مدرسہ جامعہ اشرفیہ کے نام پر قائم کیا۔ جامع مسجد کی امامت وخطابت سنبھالی اور پھر بڑے استقلال کے ساتھ یہاں پر خدمات انجام دیں۔ آپ بہت اچھے خطیب تھے۔ قرآن مجید ترنم سے پڑھتے تو لوگ مسحور ہو جاتے۔ قدرت نے عزت واحترام کا ایسا ماحول بنا دیا۔ علاقہ کی نامور دینی شخصیت کے حوالہ سے آپ اس علاقہ کی پہچان بن گئے۔
مولانا محمد امین اوکاڑویؒ چناب نگر ختم نبوت کورس پر تشریف لائے تو فرمایا کہ سید نا مہدی علیہ الرضوان پر علامہ سیوطیؒ اور علامہ ابن حجر مکی ہیتمیؒ کے رسائل کا اُردو ترجمہ ہونا چاہیے۔ نواصب وخوارج جو ان کے منکر ہیں اُن کے نظریات کا علاج ہوسکے۔ ہمارے سادہ بہت سارے نوآموز علماءاس بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔ فقیر نے حضرت سید نفیس الحسینیؒ شاہ صاحب سے مشاورت کی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ کام وہی کر سکے جس کا سینہ اہل بیتؓ اور صحابہ کرامؓ کی محبت سے معمور ہو۔ آپ نے فرمایا کہ قاری قیام الدین الحسینیؒ اس کے لیے بہت موزوں ہیں۔ چنانچہ فقیر نے پنڈدادن خان جاکر گزارش کی۔ چنانچہ آپ نے علامہ سیوطیؒ کا رسالہ (۱) ”العرف الوردی فی اخبار المہدی“ (۲) ”الاعلام بحکم عیسیٰ علیہ السلام“ اور علامہ ابن حجر مکی ہیتمی کا رسالہ (۳) ”القول المختصر فی علامات المہدی المنتظر“ تینوں رسائل کا ترجمہ کیا۔ ان رسائل کے اوائل میں بنوری ٹاون اور دارالعلوم کراچی کا عقیدہ آمد سیدنا مہدی علیہ الرضوان پر فتاویٰ شائع کیے، کہ مہدی علیہ الرضوان کی آمد کا عقیدہ اہل سنت کے شعائر میں شامل ہے۔ ان کی آمد کا منکر اہل سنت سے خارج اور فاسق ہے۔
ان رسائل کا اُردو میں منتقل ہو جانا جہاں نواصب وخوارج کے عقائد فاسدہ کے لیے سد سکندری ہے وہاں قاری صاحب مرحوم کے لیے زاد آخرت ہے۔ آپ ہمیشہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر وچنیوٹ میں شرکت فرماتے۔ بہت محبتوں والے انسان تھے۔ حضرت قاضی مظہر حسینؒ، حضرت سید نفیس الحسینیؒ سے بہت محبتوں کا رشتہ قائم تھا اور خود پورے حلقہ علماءمیں مقام محبوبیت پر فائز تھے۔ کچھ عرص بیمار رہے آخرکار بلاوا آیا۔ 9مئی 2025ءصبح کو انتقال ہوا، شام کو جنازہ اور مغرب سے پہلے دارالبقاءپہنچ گئے۔ آپ کا جنازہ علاقہ کا بہت بڑا جنازہ تھا۔ علماءوحفاظ کی کثرت تھی۔ زہے نصیب!
