اہم تبدیلیاں اوراہم تقاضوں کی تکمیل

ملک کے نظم و نسق میں اہم نوعیت کی تبدیلیاں وقوع پزیر ہوچکی ہیں ۔ ان تبدیلیوں کا قانونی جواز حال ہی میں ہونے والی آئینی ترامیم کی وجہ سے ممکن ہو اہے ۔ آئینی ترامیم کے بعد پاک آرمی کے سپہ سالار فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر افواج پاکستان کے مشترکہ کمانڈر بن چکے ہیں ۔یہ پاکستان کی عسکری تاریخ میں ایک نئی روایت کا آغاز ہے۔نوتشکیل شدہ روایت سے ایک جامع دفاعی اور عسکری حکمت عملی پر عمل آسان ہوجائے گا۔ متحدہ کمانڈ کا نیا عسکری ماڈل دراصل مشترکہ دفاعی ڈھانچے کے طورپر بروئے کارآئے گا۔ اس کے مقاصد میں متحدہ دفاعی منصوبہ بندی، مشترکہ دفاعی ردعمل ،تیز رفتار اور مربوط فیصلہ سازی جیسے امور شامل ہوں گے جس کی وجہ سے اسباب و عوامل کے اعتبار سے تیز رفتار قومی دفاعی فریم ورک ممکن ہوسکے گا۔ دفاعی نقطۂ نظر کے لحاظ سے ایک مرکزی نظام قائم ہوگا جو چھوٹی اور بڑی جنگوں سے لے کر ملک کی سرحدوں کی حفاظت، داخلی تحفظ اور ریاست اور عوام کی سلامتی کا ایک مربوط اور جامع عمل ہوگا۔نئی عسکری روایت کے قیام کے ساتھ ہی ملک میں آئینی حوالوں سے رونما ہونے والی تبدیلی ایک نئی آئینی عدالت کے قیام کی صورت میں سامنے آئی ہے جس کے نئے چیف جسٹس نے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا ہے اور جلد ہی یہ عدالت باقاعدگی کے ساتھ کام کا آغاز کردے گی۔

ریاست کی سطح پر رونما ہونے والے ان تبدیلیوں کے اثرات بہت جلد نمایاں طورپر محسوس کیے جائیں گے۔ ان تبدیلیوں کی ضرورت دراصل اس تاریخی ،سیاسی اور دفاعی پس منظر میںتلاش کیا جانا چاہیے جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک ایک تسلسل کی صورت میں موجود ہے۔پاکستان نے اپنے قیام کے بعد ہی سے متعدد اور متنوع مسائل ،بحرانوں اور سانحات کا سامنا کیاہے ۔ داخلی اختلافات اور باہمی آویزش سیاسی، مذہبی، لسانی ،علاقائی اور بیرونی مداخلت کے الگ الگ چہروں کی صورت میں ظاہر ہوتی رہی۔ ہم نے لسانی اور علاقائی تنازعات کی وجہ سے مشرقی پاکستان جیسا بازو کھودیا۔ لسانی بنیادوں پر ملک میں طویل مدت تک شدید انارکی برپا رہی ۔ مذہبی بنیادوں پر ہونے والی آویزش ، باہمی تصادم اور فرقہ وارانہ کشیدگی نے بھی ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ ان سب سے بڑھ کر مذہبی نظریات پر مشتمل وہ خطرناک رجحان جس نے فتنہ ٔ خوارج کی شکل اختیار کرلی، ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ فتنہ خوارج اور فتنہ ٔ ہندوستان کو ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی ،مرکز گریز رجحانات اور فوج کے خلاف جاری پروپیگنڈے اور بھارت کی جانب سے مسلط کردہ نفسیاتی جنگ نے مزید تقویت فراہم کی جبکہ پڑوسی ملک افغانستان میں قائم ہونے والی طالبان کی حکومت نے اس کی باقاعدہ سرپرستی اور پشت پناہی کی جس کی وجہ سے ملک کے دوصوبے حالت جنگ میں چلے گئے اور پورے ملک میں امن وسلامتی کے سنگین مسائل پیدا ہوگئے ۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی تھی کہ ملک کے تمام سیاسی و مذہبی طبقات ایک مشترکہ سوچ اور حکمت عملی کے تحت ریاست، عوام اور اس خطے کی آزادی و خودمختاری کے تحفظ کی خاطر یکجا ہوجاتے اور بھارت جیسی مشرکانہ تہذیب کو بزورِ قوت مسلط کرنے والی توسیع پسند ریاست کے مکروہ عزائم سے بچانے کے لیے پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں تبدیل کرنے کی سعی و جستجو کرتے لیکن افسوس کہ ملک کے سیاسی و مذہبی طبقات وقت کی ضرورت کو تسلیم کرنے کے باجود ایک نکتے پر متفق نہ ہوسکے ۔سیاسی چپقلش نے عدالتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ دوسری جانب مذہبی طبقات مشرقی سرحدوں سے اٹھنے والے فتنے کا اس حساسیت کے ساتھ ادراک نہ کرپائے جس کی موجود ہ حالات میں اشد ضرورت تھی۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں ایک ایسی قیادت کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی تھی جو فتنہ ٔ و فساد کے ظاہری وجود ہی پر قابو نہ پائے بلکہ ان سرچشموں اور مراکز کو بھی سرنگوں کرسکے جو ایک مدت سے اس ملک کے عوام اور ریاست کے وجود اور اس کی آزادی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں ہونے والے متعدد مسائل کے لیے ایک مرکز کے طورپر استعمال ہوتی چلی آئی ہے ۔ سماجی مسائل سے لے کر اسمگلنگ، منشیات کے پھیلاؤ ،دہشت گردی اور تخریب کاری نیز خانہ جنگی اور ملک میں متوازی حکومت کے قیام کی کوششوں تک ہر بڑی سازش میں بھارت اور اسرائیل کے خفیہ اداروں نے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف بیس کیمپ کے طور پراستعمال کیا ہے ۔معرکہ حق میں پاکستان کے تاریخ ساز لیکن غیر متوقع کامیابی نے بھارت کی متعصب اور انتہا پسند قیادت کے ہوش اڑادیے ہیں اور بہر صورت پاکستان سے بدلہ لینے کے درپے ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت کے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے لیے افغان قیادت نے اپنے کندھے پیش کردیے ہیں جس کے بعد ہمیں مشرقی و مغربی سرحدوں سے جارحیت کے خطرات لاحق ہیں ۔چنانچہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے دفاعی نظام کو ایک ایسے مرکز کے ساتھ مکمل طورپر مربوط کردیا جائے جس کی وجہ سے ملک حقیقی معنوں میں ایک ہادرڈاسٹیٹ بن جائے کیوں کہ یہی موجودہ حالات کی ضرورت ہے ۔

حالیہ دنوں اسلام آباد میں ہونے والے خود کش حملے اور وانا میں کیڈٹ کالج پر دہشت گردوں کی یلغار کے سرے افغانستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے سیکورٹی اداروںنے کافی تحقیقات کرلی ہیں جبکہ باجوڑ میںفتنہ ٔ خوارج کے نیٹ ورک کے خلاف تیز رفتار کارروائی میں بیس دہشت گرد مارے گئے ہیں۔یہ حملے اس امر کا اعلان ہیں کہ طالبان رجیم اپنی عداوت ، منتقم مزاجی اور حماقت سے باز آنے والی نہیں ہے ۔ وہ نظریاتی ،فکری اور تاریخی لحاظ سے غلط ثابت ہونے والی گمراہی کا شکار ہیں اور انھیں اس امر سے کوئی سروکار نہیں رہا کہ ان کے غلط فیصلوں کے نتائج نہ صرف افغان عوام کو بھگتنا ہوں گے بلکہ وہ خود بھی ردعمل کا شکار ہوجائیں گے۔ طالبان رجیم نہ صرف داخلی اختلافات کا شکار ہے بلکہ اس کی مخالف قوتیں بھی افغانستان میں اپنے پر پھیلا رہی ہیںاور خدانخواستہ یہ ملک ایک مرتبہ پھر خوف ناک داخلی انتشار، خانہ جنگی اور بدترین بدحالی کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہاہے ۔ ان حالات میں پاکستان کے عسکری نظام میں بروئے کار آنے والی نئی روایت کے سامنے ایک فوری مسئلہ مشرقی سرحدوں پر ایک ایسے بفر زون کا قیام ہے جسے قریبی دوست ممالک کی حمایت حاصل ہو اور بین الاقوامی تنقید اس اہم حکمت عملی پر اثر انداز بھی نہ ہوسکے ۔اطلاعات کے مطابق چین نے لداخ کے علاقے میں ایک بفر زون قائم کرلیاہے جو کہ پاکستان کے لیے وانا سے لے کر چمن بارڈرتک ایک مرحلہ وار بفرزون کے قیام کی نظیر بن سکتاہے۔ ملک میں عسکری قوت کے مرکزی نظام کی فعالیت کا پہلا نتیجہ بہر حال فتنہ ٔ خوارج اور فتنہ ٔ ہندوستان کے خلاف ایک بھرپور کارروائی کی صورت میں سامنے آنے ہی والا ہے۔ بفر زون کا قیام ایک اہم دفاعی تقاضے کی شاید پہلی تکمیل ہوگی۔