آئی پی پیز کا استحصالی شکنجہ توڑے بغیر ترقی ممکن نہیں

ایک رپورٹ کے مطابق آئی پی پیز معاہدوں کی منسوخی اور نظرثانی سے حکومت کو کھربوں روپے کی بچت ہوئی ہے۔ ذرائع وزارت توانائی کا بتانا ہے کہ دباؤ کے باوجود متعدد آئی پی پیز سے معاہدے منسوخ کیے گئے اور ان معاہدوں کی منسوخی اورنظرثانی سے 3600 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے۔ ذرائع وزارت توانائی کا کہنا ہے کہ 20 سال قبل 40 آئی پی پیز سے بجلی کے مہنگے معاہدے کیے گئے تھے۔ بجلی پیدانہ کرنے کے باوجود کپیسٹی چارجز کی مد میں اربوں روپے کی ادائیگیاں ہوئیں، مہنگے معاہدوں سے عوام کی جیبوں سے 3.6 ٹریلین روپے سالانہ نکلوائے جانے تھے۔ اس حوالے سے صنعتکار برادری کا کہنا ہے کہ 40 خاندانوں نے آئی پی پیز معاہدے کرکے ملک کو یرغمال بنائے رکھا ہے، بند پاور پلانٹس کے باوجود اربوں روپے وصول کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا جائے۔

توانائی کے شعبے میں اس پیش رفت نے ایک بار پھر معاشی ناانصافی اور طبقاتی تفاوت کے زخم ہرے کر دیے ہیں۔ یہ امر بہرحال خوش آئند ہے کہ حکومت نے متعدد آئی پی پیز (آزاد بجلی ساز کمپنیوں) کے مہنگے معاہدے منسوخ یا نظرثانی کے بعد ختم کیے، جس کے نتیجے میں 3600 ارب روپے کی خطیر بچت ہوئی۔ یہ ان معاہدوں کی وہ رقم ہے جو قوم کے خزانے سے ہر سال صرف ”کپیسٹی چارجز” کے عنوان سے نکالی جا رہی تھی۔ حیرت انگیز طور پر بجلی پیدا نہ کرنے کے باوجود یہ کمپنیاں اربوں روپے وصول کرتی رہیں، جب کہ عوام لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں ڈوبے تڑپتے رہے۔ اصل مسئلہ معاہدوں کا نہیں بلکہ اس پورے نظام کا ہے جو عوام کی محنت کی کمائی کو مخصوص طبقوں کی تجوریوں میں منتقل کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ صنعتکار برادری کی یہ شکایت بجا ہے کہ محض چالیس خاندانوں نے آئی پی پیز کے ذریعے ملک کو یرغمال بنائے رکھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بند پاور پلانٹس کے باوجود اربوں روپے قومی خزانے سے وصول کیے اور آج بھی ”قانونی” فریم ورک کے اندر رہ کر عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈال رہے ہیں، کیونکہ یہ معاہدہ مکمل ختم نہیں ہوا ہے۔

دیکھا جائے تو یہ استحصالی صورتحال توانائی کے شعبے تک محدود نہیں۔ ایک تازہ جائزے کے مطابق پاکستان میں 10 کروڑ 79 لاکھ 50 ہزار شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جو کل آبادی کا تقریباً 44 فیصد بنتے ہیں۔ یہ تعداد اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وسائل کی تقسیم میں شدید عدم توازن ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ جو لوگ غربت کی لکیر سے ذرا اوپر ہیں، ان کی حالت بھی غریبوں سے مختلف نہیں۔ دوسری جانب امیر طبقہ محض دو فیصد ہے مگر قومی وسائل کا رخ مکمل طور پر انہی کی طرف ہے۔ ریاست کے وسائل، ترقیاتی منصوبے، سبسڈیز اور سہولتیں اسی طبقے کو دستیاب ہیں جس کے پاس پہلے ہی بے تحاشہ دولت موجود ہے۔ اس کے برعکس وہ محنت کش طبقہ جس کو سب سے زیادہ وسائل کی ضرورت ہے، وہ تعلیم، صحت، روزگار اور توانائی جیسی بنیادی سہولتوں تک سے محروم ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جس نے پورے معاشرے کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ آئی پی پیز کے معاہدے دراصل اسی معاشی ناانصافی کی علامت ہیں۔ نوے کی دہائی میں کیے گئے ان استحصالی معاہدوں نے ملکی معیشت پر ایسا بوجھ ڈال دیا جو آج تک کم نہیں ہو سکا۔ کیپسٹی چارجز کے نام پر کمپنیاں بجلی پیدا کیے بغیر پیسہ لیتی رہیں اور حکومت عوام پر اضافی بلوں کی صورت میں یہ بوجھ منتقل کرتی رہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بجلی کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، صنعتیں کمزور ہوگئیں، برآمدات متاثر ہوئیں اور عام آدمی بجلی کے بل ادا کرتے کرتے غربت کی دلدل میں دھنس گیا۔ مقام فکر ہے کہ ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود پاکستان میں اکیسویں صدی میں بھی سولہ سولہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ ملک کے پاس وسائل کی کمی نہیںلیکن بدقسمتی سے یہاں نیتوں میں فتور ہے اور پالیسی سازی کرپٹ اشرافیہ کے ہاتھ میں ہے۔ آئی پی پیز کے استحصالی معاہدے اسی کرپٹ سرکل کی سب سے نمایاں مثال ہیں۔ ایک ایسا معاہدہ جس کے تحت کمپنیاں صرف ”تیاری کی حالت” میں رہنے کے پیسے لیتی رہیں، کسی بھی خود مختار اور باشعور قوم کے لیے ناقابلِ قبول ہونا چاہیے تھا، لیکن یہاں الٹا یہ معاہدے ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھے۔

آج جبکہ کچھ معاہدے منسوخ کر کے 3600 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے، یہ حکومت کیلئے موقع ہے کہ وہ قوم کو اعتماد میں لیکر فوری طور پر اس معاہدے کے تحت چلنے والی باقی آئی پی پیز کو بھی باہر کا راستہ دکھائے، ایک غریب اور مقروض قوم اس بدترین لوٹ مار کی کسی طرح بھی متحمل نہیں ہے۔ معاملہ صرف آئی پی پیز کے استحصالی معاہدے تک محدود نہیں، بجلی کی پیداورار سے ترسیل اور فروخت تک کا سارا نظام انتہائی کرپٹ، فرسودہ اور ظالمانہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کے اس پورے نظام کو از سرِ نو تشکیل دیا جائے۔ کیپسٹی چارجز کا ظالمانہ فارمولا مکمل طور پر ختم کیا جائے، بجلی کے نرخ حقیقی پیداواری لاگت کے مطابق مقرر کیے جائیں اور نجی کمپنیوں کو نیشنل گرڈ کے تابع کیا جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ان معاہدوں میں ملوث سرکاری افسران، وزراء اور بیوروکریٹس کا احتساب کیا جائے جنہوں نے عوام کے مفاد کے برعکس چند کمپنیوں کو ناجائز فائدہ پہنچایا۔

ممدانی کی جیت یا ٹرمپ کی شکست؟

غیرملکی میڈیا کے مطابق نیو یارک شہر کے انتخابات میں اپوزیشن ڈیموکریٹک امیدوار ظہران ممدانی کامیاب ہوگئے ہیں۔ ظہران ممدانی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھرپور اور مسلسل مخالفت کے باوجود واضح مارجن کے ساتھ کامیابی حاصل کرلی ہے اور اب وہ جنوری میں اپنے عہدے اور منصب کا چارج سنبھال کر پہلے مسلم میئر بننے کا اعزاز اپنے نام کرلیں گے۔ ظہران ممدانی کی یہ فتح درحقیقت امریکا کے فاشسٹ ذہن کے صدر ٹرمپ اور ان کے بیانئے اور پالیسیوں کی شکست ہے۔ یہ امر واضح ہے کہ ممدانی پاپولسٹ ووٹ کے ذریعے کامیاب ہوئے۔ وہ جوان آدمی ہیں اور ان کی فتح میں نوجوان امنگوں اور ووٹ نے فیصلہ کن کامیابی حاصل کی، جبکہ ایک سال قبل ہی ٹرمپ بھی تبدیلی کے نام پر پاپولسٹ ووٹ کے ذریعے منتخب ہوئے، سوال یہ ہے کہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں ان کے اندر ایسی کیا خامی اور غلطی دیکھی گئی کہ اتنی بڑی سیاسی قلب ماہیئت ہوگئی اور آج انہیں نیویارک میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یقینا ٹرمپ اور ان کے شراکت داروں کیلئے اس میں بڑا سبق ہے!