ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ مسلم ممالک کو فلسطین کی تعمیرِ نو میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ انقرہ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں غزہ کے عوام تک مزید انسانی امداد پہنچانے کی ضرورت ہے مگر اسرائیلی حکومت اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ ترک صدر نے زور دیا کہ عرب لیگ اور او آئی سی کے تیار کردہ تعمیرِ نو کے منصوبے پر فوری عملدرآمد ضروری ہے۔ دریں اثنا غزہ کی صورت حال پر استنبول میں ترکیہ،سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، اردن، پاکستان اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ کے اہم اجلاس کے مشترکہ اجلاس میں غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے ہاتھ میں دینے، غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنانے اور جنگ بندی کی پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
غزہ میں دو سال کی قیامت خیز نسل کشی کے بعد بظاہر جنگ بندی ہوچکی ہے اور اگر چہ قابض و ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل نے جنگ بندی کے باوجود بہانے بہانے سے فلسطینیوں کو اپنی بہیمیت کا نشانہ بنانا ترک نہیں کیا بلکہ اب تک جنگ بندی کے تین ہفتوں کے دوران بھی پانچ سو سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا جاچکا ہے البتہ اسرائیلی حکومت امریکی صدر ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق غزہ جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کا تاثر دے رہی ہے مگر ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ غزہ کا مستقبل کا انتظام کس کے ہاتھ میں ہوگا اور مستقبل کے کسی بھی بندوبست میں فلسطینی قیادت بالخصوص فلسطینی مقاومت کا کیا کردار ہوگا۔ امریکا اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ کچھ اسلامی ممالک کی فوجیں غزہ بھیجی جائیں تاکہ وہ حماس سے اس کا اسلحہ جمع کروادیں اور پھر وہاں امریکا اور اسرائیل کی مرضی کی ایک برائے نام سول حکومت قائم کی جائے جس کی حیثیت محض ایک بلدیاتی ادارے کی ہو جبکہ غزہ کا سیکیورٹی کنٹرول مکمل طور پر اسرائیل کے ہاتھ میں ہو۔ دوسری جانب فلسطینی مقاومتی تنظیموں کا موقف ہے کہ غزہ میں ایک ایسی بااختیار مقامی انتظامیہ تشکیل دی جائے جو فلسطینی عوام کی نمایندہ ہو۔ حماس ایک سے زائد بار یہ کہہ چکی ہے کہ وہ فلسطینی دھڑوں کی مشترکہ انتظامیہ اور اس انتظامیہ کے ماتحت تشکیل دی جانے والی فورس کے ہاتھ پر اپنا اسلحہ حوالے کرنے کو تیار ہے۔ اگر حقیقت اور انصاف کی نظر سے دیکھاجائے تو یہی مسئلے کا واحد حل ہے کہ غزہ کا انتظام غزہ کے باشندوں کے حوالے کردیا جائے اورعرب واسلامی ممالک اور دیگر عالمی قوتیں ایک اچھی اور مستحکم حکومت کے قیام میں اس انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں۔ غزہ کے باشندوں کو اسرائیلی درندگی اور سفاکیت سے تحفظ دلائے بغیر ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنا اسلحہ پھینک کر خود کو اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے،غیر منطقی اور نامعقول بات ہوگی۔ یہ بات دنیا کے سامنے طشت از بام ہوچکی ہے کہ اسرائیل جنگ کے ذریعے غزہ کوسرنڈر کروانے میں ناکام رہا، اسے اپنے جتنے بھی قیدی واپس ملے، ایک معاہدے کے تحت ہی ملے ہیں اور معاہدے میں یہ نکتہ شامل رہا ہے کہ غزہ کا مستقبل سنجیدہ گفت و شنید کے ذریعے ہی طے کیا جائے گا۔ پاکستان سمیت عرب و اسلامی ممالک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے کی حمایت اس وعدے اور یقین دہانی پر کی کہ غزہ کے مستقبل سے متعلق تمام متعلقہ فریق مل کر آگے بڑھیں گے۔
اسی بنا پراسلامی دنیا میں اس توقع کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اسلامی ممالک غزہ میں پائے دار جنگ بندی و امن اور فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔اس سلسلے میں استنبول میں عرب واسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی بیٹھک اور ان کی جانب سے فلسطینی عوام کے جائز موقف کی حمایت کا اعادہ اچھی بات ہے تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی ممالک کو اپنا کردار صرف مطالبہ کرنے اور تجاویز پیش کرنے تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ غزہ کے مستقبل کے لیے اپنا واضح لائحہ عمل سامنے لانا چاہیے۔ غزہ میں قیام امن کے لیے کوئی بھی فورس بھیجنے سے پہلے فلسطینی تنظیموں کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے اور مقاومتی تنظیموں کی جانب سے اسلحہ جمع کرانے کی تجویز پر عمل درآمد کا طریقہ کار پہلے سے طے کیا جانا چاہیے۔ اسلامی ممالک بشمول پاکستان کو صرف اس صورت میں غزہ میں امن فوج بھیجنے کا اقدام کرنا چاہیے جب یہ عمل رضاکارانہ طور پر ہوناطے پاجائے۔ہمیں کسی ایسی مہم کا حصہ نہیں بننا چاہیے جس کا مقصد خدانخواستہ مسلم ممالک کی افواج اور فلسطینی عوام کو باہم دست و گریباں کرنا ہو۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے درست کہا ہے کہ اسلامی ممالک کو اب غزہ کو دوبارہ آباد کرنے اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلانے کے سلسلے میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ بعض مبصرین کو خدشہ ہے اور خود صہیونی ریاست اسرائیل کے وزراء کے بیانات اشارہ دے رہے ہیں کہ اسرائیل اپنے تمام قیدیوں کی باقیات وصول کرنے کے بعد ایک بار پھر غزہ میں کشت و خون کا بازار گرم کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ایسی کسی بھی انسانیت کش سوچ اور کوشش کی مزاحمت اور پیش بندی کرنا اسلامی ممالک اور تمام عالمی برادری کا فرض بنتا ہے۔ انہیں اپنے اس فرض سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔
مہنگائی میں اضافہ۔ عوام جائیں تو کہاں جائیں؟
ملک میں اکتوبر میں مہنگائی وزارت خزانہ کے تخمینے سے زائد ریکارڈ ہوئی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق ستمبر کے مقابلے میں اکتوبر میں مہنگائی کی شرح میں 1.83 فیصد کا اضافہ ہوا، اکتوبر میں مہنگائی بڑھنے کی سالانہ شرح 6.24 فیصد پر پہنچ گئی، وزارت خزانہ کا اکتوبر کیلئے مہنگائی کا تخمینہ 5 سے 6 فیصد کے درمیان تھا۔ ادارہ شماریات کے مطابق جولائی تا اکتوبر اوسط مہنگائی 4.73 فیصد رہی، ستمبر 2025 میں مہنگائی بڑھنے کی سالانہ شرح 5.6 فیصد ریکارڈ ہوئی تھی۔ سرکاری اعدادوشمار میںمعاشی ترقی کے مثبت اشاریے دکھائے جانے کے باوجود مہنگائی کی شرح میں روز افزوں اضافہ ملک کے غریب عوام کے لیے سخت باعث تشویش اور حکمرانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عام آدمی،محنت کش اور تنخواہ دار طبقہ مہنگائی کے منہ زور طوفان کے آگے بے بس ہوچکا ہے۔ ایک غریب آدمی کے لیے اب سبزی اور دال کھانا بھی عیاشی کے زمرے میں داخل ہوچکا ہے۔ بجلی اور گیس کے بھاری بلوں نے متوسط طبقے کے بھی کس بل نکال دیے ہیں۔کیا حکمرانوں سے یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے بھی کچھ کریں گے؟

