اسرائیل کو عالمی قوانین کے سامنے جھکانا ہوگا

مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج اور انتہا پسند آباد کاروں نے فلسطینیوں پر حملے کیے۔ عرب میڈیا کے مطابق دو سال میں ایک ہزار 62 فلسطینی ‘ یہودی آباد کاروں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ دو سال کے دوران حملوں میں زخمیوں کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ اسرائیلی فوج نے ایک ہزار 600 بچوں سمیت 20 ہزار فلسطینیوں کو گرفتار کیا۔ ترکیہ نے کہا ہے غزہ میں لاشوں کی تلاش کیلئے جانے والی ہماری ٹیم کو اسرائیل نے مصری سرحد رفح پر روک لیا ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کے بعد امریکا نے بین الاقوامی فورس کی تعیناتی کی تیاریاں تیز کردی۔ امریکی میڈیا کے مطابق مصر، انڈونیشیا، ترکیہ اور آذر بائیجان نے فوج بھیجنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ بین الاقوامی فورسز نئی فلسطینی پولیس فورس کی تیاری میں بھی کردار ادا کرے گی۔ تعیناتی ایک ہفتے کے اندر ہوسکتی ہے۔

دنیا میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو غزہ پر اسرائیلی حملوں کو سات اکتوبر 2023 کی حماس کی کارروائی کا ردِعمل قرار دے کر یہ تاثر دیتے رہے کہ دراصل حماس نے خود اسرائیل کو جارحیت کا موقع فراہم کیا۔ یہ موقف بظاہر منطقی دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سوال یہ ہے کہ مغربی کنارہ تو وہ علاقہ ہے جہاں حماس کا وجود ہی نہیں، وہاں نہ اس کی عسکری شاخ ہے، نہ کوئی منظم مزاحمت کا ہی کوئی وجود ہے، حد تو یہ ہے کہ وہاں کے فلسطینیوں کے پاس سوائے غلیلوں کے کوئی اسلحہ نہیں۔ حماس صرف غزہ میں سرگرم ہے اور اس کا اثر رسوخ بھی اسی علاقے تک محدود ہے۔ غزہ اور مغربی کنارہ ایک دوسرے سے جغرافیائی طور پر بھی جدا ہیں، ان کے درمیان اسرائیل کا زیر قبضہ علاقہ حائل ہے۔ پھر بھی مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر ظلم و جبر کی وہی داستان لکھی جا رہی ہے جو غزہ میں جاری ہے۔ اگر اسرائیلی جارحیت کا بہانہ حماس ہے تو مغربی کنارے کے معصوم فلسطینیوں پر ان حملوں کی کیا توجیہ دی جا سکتی ہے؟ گزشتہ دو سال کے دوران مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج اور صہیونی آبادکاروں نے ایک ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا، دس ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے اور بیس ہزار فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سولہ سو بچے بھی شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور (اوچا) کے مطابق صرف اکتوبر کے مہینے میں قابض اسرائیلی آبادکاروں نے فلسطینیوں کے خلاف دو سو چونسٹھ حملے کیے، جو سنہ 2006 سے اب تک ایک ماہ میں ہونے والے حملوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ حملے روزانہ اوسطاً آٹھ واقعات کی صورت میں پیش آئے، جن میں بے شمار مکانات تباہ ہوئے، کھیت اجڑ گئے اور درجنوں خاندان بے گھر ہو گئے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ 2006ء سے اب تک مغربی کنارے میں آبادکاروں کے نو ہزار چھ سو سے زیادہ حملے ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔ صرف رواں سال کے دوران پندرہ سو حملے ہوئے، جو مجموعی تعداد کا پندرہ فیصد ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مغربی کنارے میں کسی مزاحمت یا شورش کے بغیر بھی فلسطینی روزانہ کی بنیاد پر ریاستی دہشت گردی اور دنیا بھر سے آئے بھگوڑے یہودی آبادکاروں کے ظلم کا شکار ہیں۔ اسرائیلی فورسز اور آبادکار جب چاہتے ہیں فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، گھروں میں داخل ہو کر خواتین اور بچوں کو ہراساں کرتے ہیں، چیک پوائنٹس پر گھنٹوں ذلیل و خوار کرتے ہیں، جن فلسطینیوں کی زمین یا مکان آبادکاروں کی نظر میں آ جائے، اگلے دن وہی جائیداد اسرائیلی انتظامیہ کی سرپرستی میں ان کے قبضے میں دے دی جاتی ہے۔یہ سلسلہ محض تشدد نہیں بلکہ منصوبہ بند نسلی تطہیر ہے، جو آج کے جدید دور میں انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ بن چکا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اْس دنیا میں ہو رہا ہے جو خود کو مہذب، انسانی حقوق کی علمبردار اور انصاف کی پیامبر کہلاتی ہے۔ نسلی امتیاز اور مذہبی تعصب کے خلاف سب سے زیادہ شور مچانے والی مغربی طاقتیں ہی اسرائیل کی پشت پناہ ہیں۔ یہی وہ کھلی منافقت ہے جو دنیا میں فساد کا باعث ہے۔ ایک طرف تو یورپی یونین اور امریکا نسل پرستی کیخلاف قوانین بناتے ہیں، دوسری طرف وہ اسرائیل کی انہی پالیسیوں کو تحفظ دیتے ہیں جو سراسر نسل پرستی پر مبنی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ دوغلاپن نہیں کہ دنیا ایک طرف جنوبی افریقہ میں رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیاز کو جرم قرار دیتی ہے اور دوسری طرف فلسطین میں اسی نوعیت کے جرم پر آنکھیں بند رکھتی ہے؟اسرائیلی حکومت نے نہ صرف اپنی افواج بلکہ انتہا پسند یہودی آبادکاروں کو بھی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ مغربی کنارے میں بستیوں کی توسیع عالمی پابندیوں کے باوجود تیزی سے جاری ہے۔ فلسطینیوں کے کھیت اور زمینیں ہتھیائی جا رہی ہیں۔ اسرائیل کی عدالتیں اور انتظامیہ سب ایک ہی منصوبے یعنی فلسطین اور فلسطینیوں کا وجود مٹانے کے عمل کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف فلسطینیوں کیلئے بلکہ عالمی امن کیلئے بھی سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ اسرائیلی اقدامات کے نتیجے میں مشرقِ وسطی پر ہمہ وقت تصادم کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔

ایک خبر کے مطابق ترکیہ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور دیگر سینئر اسرائیلی حکام کے خلاف فلسطین میں نسل کشی کے الزام میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔ یہ قدم یقینا علامتی سہی، مگر ایک اہم اخلاقی اور قانونی پیغام رکھتا ہے کہ اسرائیلی قیادت کو عالمی قانون کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔ ترکیہ نے یہ بھی الزام لگایا کہ غزہ میں لاشوں کی تلاش کیلئے جانے والی اس کی امدادی ٹیم کو اسرائیل نے رفح بارڈر پر روک دیا، جو انسانی ہمدردی کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری طرف امریکا کی جانب سے جنگ بندی کے بعد بین الاقوامی فورس کی تعیناتی کی تیاریاں جاری ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مصر، انڈونیشیا، ترکیہ اور آذربائیجان نے فوج بھیجنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ یہ فورس نئی فلسطینی پولیس فورس کی تیاری میں بھی کردار ادا کرے گی۔ اگر یہ منصوبہ عملی شکل اختیار کرتا ہے تو یہ خطے میں کسی حد تک امن کی بحالی کی طرف ایک قدم ہوگا، مگر سوال یہی ہے کہ کیا اسرائیل ان فورسز کو آزادانہ کام کرنے دے گا؟ کیا وہ بین الاقوامی نگرانی کو قبول کرے گا؟ اس کے سابقہ رویے سے ظاہر ہے کہ اسرائیل کسی بھی غیرجانبدار مداخلت کو برداشت نہیں کرتا۔ اس پس منظر میں مسلم ممالک کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے۔ سعودی عرب، ترکیہ، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک اگر واقعی مسئلہ فلسطین کے پرامن اور منصفانہ حل کے خواہاں ہیں تو انہیں محض زبانی بیانات سے آگے بڑھنا ہوگا۔