ممتاز ومعروف عالم دین مولانا مفتی حنیف عبد المجید بھی خلد آشیانی ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مفتی صاحب کے ساتھ ہماری بہت پرانی یاد اللہ تھی۔ چند سال پہلے پاکستان میں حفظ قرآن کریم کے سب سے مشہور و مقبول ترین تعلیمی ادارے جامعہ دارالعلوم حسینیہ شہداد پور سندھ کی سالانہ تقریب میں ہم دونوں اکٹھے مدعو تھے۔ مفتی صاحب نے بیان سے پہلے بندہ کی گفتگو تھی۔ تقریب کے اختتام پر کھانے کی دسترخوان پر مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس کے بعد ہم نے ایک ساتھ ہی کراچی تک سفر کیا۔ حضرت مفتی صاحب کی دین اسلام کی اشاعت اور ترویج کے لئے متنوع خدمات ہیں۔ بہت ہی معرو ف و مقبول سیریز تحفہ دلہن، تحفہ دولہا، تحفة الاساتذہ سمیت درجنوں کتابوں کے مولف و مصنف تھے۔ بہترین فکر مند عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں قرآن مجید کو مکاتب، مدارس، اسکولوں کے ذریعے سے مسلمان بچوں اور بچیوں کو قرآن مجید کی تعلیم اور تربیت کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے۔ مکتب تعلیم القرآن کا نیٹ ورک بہت وسیع تھا۔ 2021کی کارگزاری بیان کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ اس وقت ملک پاکستان میں کل معاونین کی 390ہے۔ کل مکاتب کی تعداد 6173ہے۔ کل اساتذہ کرام کی تعداد 11465ہے۔ کل طلبہ کی تعداد 223550ہے۔ کل بالغان مکاتب کی تعداد 1193ہے۔ کل مستورات اساتذہ کی تعداد 956ہے۔ کل اسکولوں کی تعداد 488ہے۔ تجوید قرآن کے حلقوں کی تعداد 263ہے۔
موت کا وقت تو طے ہے، مگر بعض شخصیات اس قدر ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہوتی ہیں کہ ان کی وفات پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید قوم کی مجموعی ناقدری کے سبب اللہ تعالی نے اس عظیم نعمت کو ہم سے واپس لے لیا ہو۔ حضرت مفتی صاحب نے اپنی کم مدت حیات میں جو بے مثال خدمات انجام دیں وہ انسانی عقل کو دنگ کردیتی ہیں، انہوں نے اپنی خدمات کا ایک ایسا وسیع جال بچھایا جو پورے ملک پر محیط ہے اور ہر کام اپنی جگہ بھرپور وسعت اور جامعیت کا حامل ہے۔ آپ ذرا اندازہ لگائیے کہ ایک آدمی ہے لیکن مدرسہ بیت العلم کا درس نظامی ہو یا حفظ قرآن کریم کا شعبہ، البدر اسلامک اسکولنگ سسٹم کی بنیاد ہو، یا مکتب تعلیم القرآن کا فروغ، اشاعتی ادارہ مکتبہ بیت العلم کے ذریعہ علم کی اشاعت کی بے لوث کاوشیں ہوں، یا سماجی معاشرتی اور گھریلوں زندگی کے موضوعات پر ان کی شہرہ آفاق گرانقدر تصنیفات ہوں یا بچوں کے ادب کے حوالہ سے بہترین کتابیں، یا عصری نصاب تعلیم میں ان کی خدمات، یہ ایک جان نہیں بلکہ پورا جہاں ہے اور اس سب کے ساتھ انہوں نے اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں کیا، ان کے یہ سب کام، بلکہ ان کے تحت تمام ادارے، تمام خدمات وقف کی اعلی ترین مثال ہیں۔ ان تمام ظاہری خدمات کے علاوہ ان کی بہت سی ایسی کاوشیں بھی ہیں جو ابھی عام لوگوں سے گوشہ خفا میں ہیں اور جن کا اجر صرف اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔ انہوں نے ان تمام عظیم الشان خدمات میں اپنی ذات اور شخصیت کو مکمل گمنامی اور کمال انکساری میں رکھا۔ حالانکہ یہ وہ دور ہے جہاں اچھے خاصے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ بھی یقین کے ساتھ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اس زمانے میں میڈیا، کیمروں کی چکاچوند اور تصویری مہم کے بغیر شاید کوئی بڑا دینی کام ممکن ہی نہیں۔ حضرت مفتی صاحب نے شہرت، نمائش اور خود نمائی کے تمام وسائل سے دْوری اختیار کر کے اپنے اخلاص اور عمل سے ان تمام واہموں اور مفروضوں کو یکسر مسترد کر دیا، انہوں نے صرف اللہ کی رضا کے لیے اتنے بڑے بڑے اور دیرپا کام انجام دیے کہ انسان کا سر عقیدت سے جھک جاتا ہے۔
مفتی صاحب جامعہ بنوری ٹاؤن کے باکمال فاضل تھے جو اپنی ذات اور خود سے وابستہ تمام خدمات کو اپنے اساتذہ کا فیض اور جامعہ کی تربیت کا ثمر گردانتے تھے، حضرت بنوری رحمہ اللہ نے جو چراغ روشن کیا انہوں نے اسے بحسن و کمال آگے پہنچایا۔ آج ایسے باکمال لوگ تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتے۔ بہرحال موت کا وقت مقرر ہے۔ جلد یا بدیر سب کو آنی ہے۔ سب کو تیار رہنا چاہئے۔ کسی کو اس سے مفر ممکن نہیں۔ بس دیکھنا یہ ہوگا کہ ہم نے اپنی اگلی زندگی کے لئے کیا تیاری کی ہے۔ حضرت مفتی صاحب نے آخرت کا بہت سارا توشہ مختلف صورتوں میں تیار کر رکھا ہے۔ کہتے ہیں نیک لوگ دنیا سے ویسے بھی جلدی چلے جاتے ہیں۔ مولانا حنیف عبدالمجیدکی نمازِ جنازہ جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی اقتدا میں ادا کی گئی۔ نمازِ جنازہ میں مہتمم علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن مولانا سلمان بنوری، بنوری ٹاؤن کے ناظم تعلیمات مولانا امداد اللہ یوسف زئی، جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی کے رئیس ڈاکٹر مولانا نعمان نعیم، ناظمِ تعلیمات مولانا عبدالحمید خان غوری سمیت اکابر علمائے کرام، مشائخ، سیاسی و سماجی شخصیات، مدارس کے اساتذہ، طلبہ اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ نماز جنازہ کے بعد ہر شخص کی زبان پر آپ کی گرانقدر دینی و علمی خدمات کا تذکرہ تھا۔ آپ نے پوری زندگی تعلیم، تربیت اور اصلاحِ امت کے لیے وقف کی ہوئی تھی۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ موت بعد اگر لوگ اچھے کہہ رہے ہیں تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں بھی نیک ہی شمار ہوگا۔ جانے والے کے لئے بہترین توشہ یہی ہوتا ہے کہ قرآن کریم پڑھ کر ایصال ثواب کیا جائے۔ آپ بھی حضرت مفتی صاحب کی کامل مغفرت کے لئے ہاتھ اٹھا لیجئے۔

