استنبول مذاکرات کی ناکامی!

پاکستان اور افغانستان کی طالبان حکومت کے درمیان ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئے ہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان چھ نومبر کو شروع ہونے والے مذاکرات کا حالیہ دور بھی مکمل ڈیڈ لاک کا شکار رہا اور اب پاکستانی وفد واپس آ رہا ہے۔ نجی ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ‘مذاکرات کے اگلے دور کا نہ تو کوئی پروگرام ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اُمید ہے۔’خواجہ آصف کے مطابق مذاکرات کے دوران افغان وفد بھی پاکستان کے موقف کو تسلیم کر رہا تھا، لیکن یہ معاملہ وہ تحریر میں لانے پر راضی نہیں تھے۔ وہ صرف زبانی کلامی کہہ رہے تھے کہ ہم پر اعتماد کیا جائے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا نیا دور جمعرات کو استنبول میں شروع ہوا تھا۔ اس سے قبل استنبول میں ہونے والے مذاکرات بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے تھے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیرپا امن کے قیام کے لیے استنبول میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔

استنبول مذاکرات کی ناکامی دونوں ملکوں کے کروڑوں مسلمانوں بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے مایوس کن اور باعث تشویش امر ہے۔ دونوں ملکوں کے لیے خیر خواہی کے جذبات رکھنے والے بہت سے حلقوں کو توقع تھی کہ استنبول میں ہونے والے تفصیلی مذاکرات کے دوران اختلافی معاملات کا کوئی حل نکل آئے گا اور پاکستان اور افغانستان دو برادر اسلامی و پڑوسی ممالک کی حیثیت سے ایک دوسرے کی سلامتی اور تحفظ کے لازمی تقاضوں کا ادراک کریں گے اور باہمی مسائل کو گفت و شنید کے ذریعے خوش اسلوبی سے حل کرنے کی صلاحیت اور عزم کا مظاہرہ کریں گے مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت سے پاکستان کا بنیادی اور اصولی مطالبہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ وزیر اطلاعات عطاء تارڑکے مطابق مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان طالبان کے وفد نے شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے سے بارہا اتفاق کیا۔ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد فراہم کیے گئے جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور وہ اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا جس پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ کہنے کو تو طالبان حکومت یہی کہتی ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنی سرزمین کسی بھی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی مگرحقیقی اور زمینی صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں بھارتی ایماء پر دہشت گردی کرنے والی ٹی ٹی پی کی پوری قیادت افغانستان میں موجود ہے،وہاں سے پاکستان میں تخریب کاری کی کارروائیوں کے لیے باقاعدہ تشکیلات ہورہی ہیں، گزشتہ دو تین برسوں کے دوران سینکڑوں ایسے دہشت گرد مارے اور پکڑے گئے جن کے افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی قیادت کے ساتھ روابط کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں جو پاکستان نے ایک سے زائد بار افغان حکومت کے سامنے پیش کیے ہیں۔ اس کے باوجود طالبان حکومت کی جانب سے افغانستان میں پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کی موجودی سے انکار حقائق سے آنکھیں پھیرنے کے مترادف ہے۔

افغان طالبان حکومت کا یہ موقف کہ پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی کی ذمہ داری اس پرعائد نہیں ہوتی، اس وقت درست مانی جاتی اگر پاکستان نے اس دہشت گردی کے لیے افغانستان سے تشکیلات ہونے کے ثبوت پیش نہ کیے ہوتے۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق مذاکرات کے دوران بہت سے حقائق کو ماننے پر مجبور ہوئے تاہم وہ ان حقائق کی روشنی میں اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کی تحریری ضمانت دینے کو تیار نہیں ہیں اور ان کا خیال ہے کہ پاکستان کو ان کی زبانی یقین دہانیوں پر اعتماد کرنا چاہیے۔ یہ بات اس لیے درست نہیں ہے کہ اس طرح کی زبانی یقین دہانیاں ان کی جانب سے پہلے بھی کئی بار کرائی جاتی رہی ہیں تاہم جب بات عمل درآمد کی آجاتی ہے تو طالبان رہنماؤں کی جانب سے یہ عذر لنگ پیش کیا جاتا ہے کہ ہم کچھ داخلی مجبوریوں کی وجہ سے ٹی ٹی پی قیادت کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان اپنی سلامتی کو ایسی کچی اور بے اعتبار یقین دہانیوں پر نہیں چھوڑ سکتا۔ پاکستان کے کئی شہروں اور دیہات میں روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف کچھ نہیں کر رہے اور ساری ذمہ داری افغان حکومت پر ڈال رہے ہیں جیساکہ افغان طالبان کے ترجمان کے بیان سے مترشح ہوتا ہے، پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ملک کے طول وعرض میں عوام کو ہر قسم کی دہشت گردی و تخریب کاری سے بچانے کے لیے سرتوڑ جدوجہد کر رہے ہیں،پاکستان کی مسلح افواج کے سپاہی اور افسران اپنی جانوں پر کھیل کر ملک کی سرحدوں کا تحفظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر افغانستان کے ساتھ پچیس سو کلو میٹر سے زائد کی طویل سرحد ہے جو زیادہ تر دشوار گزار پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے دراندازی کا آسان ہدف ہے۔ پاکستان نے افغان حکومت سے یہ مطالبہ ہر گز نہیں کیا کہ وہ بھی اپنی سرحد پرنگرانی کے عمل کے ذریعے دہشت گردوں کو پاکستان میں دراندازی سے روکے کیونکہ یہ عملاً ممکن نہیں ہے البتہ پاکستان کا یہ موقف بالکل جائز اور تمام شرعی،قانونی اور بین الاقوامی ضوابط کے عین مطابق ہے کہ جو لوگ طالبان حکومت کی میزبانی سے فیض یاب ہوکر وہاں پاکستان کے خلاف معسکرات چلارہے ہیں، وہاں سے خود کش حملہ آوروں کی تشکیل کرکے انہیں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے لیے تیار کر رہے ہیں، ان کو اس دہشت گردی سے باز رکھنے کے لیے صرف زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ عملی اقدامات کیے جائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا سنجیدہ اور سنگین مسئلہ ہے کہ پاکستان کی سلامتی اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس پر سمجھوتا کرنے کا مطلب اپنی سا لمیت کو داؤ پر لگانا ہے۔ پاکستان کو اپنی داخلی سلامتی اور علاقائی سا لمیت کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کا حق حاصل ہے۔