افغانستان، مرکز گریز رجحانات اور مذاکراتی عمل

اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کی جانب سے اس امر پر تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ افغانستان اس وقت بھی دنیا میں افیون پیدا کرنے کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ رپورٹ کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کے مختلف اضلاع میں افیون کی کاشت مسلسل جاری ہے اور نتائج کے لحاظ سے اس کے مضر اور منفی اثرات میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہیں ہوئی ہے جیسا کہ کابل میں موجود طالبان رجیم کا دعویٰ ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مقامی سطح پر افیون کی کاشت، منشیات کی تیاری اور اسمگلنگ ایک نہایت سنگین نوعیت کا بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کے ساتھ مختلف عالمی نوعیت کے جرائم جڑے ہوئے ہیں۔ مقامی سطح پر یہ امر دراصل وارلارڈ کی اجارہ داری کی اہم علامت ہے۔ افیون کی کاشت، اس کے کاروبار، منشیات کی تیاری اور اسمگلنگ کا سلسلہ پاک، افغان سرحد کے دونوں جانب موجود ہے اور دہشت گردی سے نبرد آزما پاک فوج اس پورے سلسلے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتی ہے۔ سیکورٹی فورسز کے پاس اس امر کے متعدد شواہد موجود ہیں کہ منشیات فروشی، اسلحے کی ترسیل اور دہشت گردی کے تانے بانے پاکستان دشمنی کے ذریعے باہم پیوست ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ایک وسیع نیٹ ورک ہے جو محض افغانستان تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے سرے پاکستان کی سرحدوں کے اندر تک پھیلے ہوئے ہیں اور پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی جو بظاہر نام نہاد مذہبی بیانیہ اور خود ساختہ جہاد کا عنوان رکھتی ہے، دراصل منشیات کی اسمگلنگ، اسلحے کی ناجائز تجارت، بھتہ خوری اور شہریوں کے قتل اور اغوا برائے تاوان جیسے بھیانک جرائم کے ذریعے دولت کے حصول کا ایک بھیانک کھیل ہے جسے پڑوسی ملک بھارت سمیت کچھ بیرونی طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ منظر نامہ اس امر کی نشان دہی بھی کرتا ہے کہ افغانستان میں اس وقت بھی طاقت اور اختیارات مرتکز نہیں ہیں اور مقامی سردار، جتھوں کے سربراہ، جنگجو گروپ اور نسلی بنیادوں پر منقسم قبائل اپنی حدود میں اجارہ داری کی طاقت رکھتے ہیں اور یہی وہ معاملہ ہے جو افغانستان کو کسی بھی وقت ایک نئی خانہ جنگی کی جانب دھکیل سکتا ہے جس کا پاکستان کو بڑی گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ ادراک ہے۔ افغانستان میں پنپتے اور قوت اختیار کرتے مرکز گریز اثرات کا لازمی تقاضا ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں کو دراندازی سے بچانے اور غیر ریاستی گروہوں کے شر اور فساد سے اپنی سرزمین اور عوام کو محفوظ رکھنے کے لیے افغان عبوری حکومت سے اس کی لازمی ذمہ داریوں سے وابستہ مؤثر اور نتیجہ خیز اقدامات کی ٹھوس اور ضمانت طلب کرے۔ طالبان رجیم میں شامل وہ عناصر جو اس وقت پاکستان دشمنی میں اپنے وعدوں کو فراموش کر کے بھارت کے دیرینہ مقاصد کے آلۂ کار بن چکے ہیں اور جن کے تعصب اور شرانگیزی کو قابلِ بھروسہ سمجھ کر اس وقت بھارت مغربی سرحدوں سے سندور دوم آپریشن کی کامیابی کے حوالے سے پرامید ہے دراصل اپنی ہی سرزمین کو جنگ کے شعلوں کے سپرد کرنے کے درپے ہیں اور ان کے قول و فعل میں پائے جانے والے شدید تضاد کی وجہ سے پاکستان ان کی یقین دہانیوں پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پاکستان کی جانب سے طالبان رجیم کے ساتھ مذاکراتی عمل میں شریک نمائندوں نے مذاکرات میں طے شدہ امور کی ضمانت بھی اسی وجہ سے ایک ایسی اتھارٹی سے طلب کی ہے جو کہ اپنی رِٹ منوانے کی استعداد رکھتی ہو کیوں کہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ افغان عبوری حکومت اگر اپنے داخلی اختلافات کو حل نہ کر سکی اور افغان سرزمین بدستور پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی جیسا کہ اسپین بولدک سے گزشتہ روز بھی پاکستانی سرحدوں پر فائرنگ کی گئی تھی تو اس کے نتائج آخرکار وہی نکلیں گے جن کی جانب پاکستان کی قیادت ایک سے زائد مرتبہ اشارہ کر چکی ہے۔

استنبو ل میں جاری پاک، افغان امن مذاکرات ایک ایسے ماحول میں ہو رہے ہیں جب ایک طرف افغان عبوری حکومت کے بعض ارکان پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات میں امن، خیر سگالی اور دوطرفہ تجارت کے فروغ اور تجارتی راہ داریوں کی بحالی پر زور دے رہے ہیں تو دوسری جانب اسی رجیم کے بعض اہم ارکان کی جانب سے پاکستان کو سبق سکھانے، اس کی سرحدوں کو تسلیم نہ کرنے اور اس کے شہرو ں کو جلانے جیسے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں۔ گویا ایک ہی ساز سے مختلف نوعیت کے سُر نکل رہے ہیں اور سننے والوں کے لیے یہ فیصلہ دشوار ہو چکا ہے کہ وہ اس ساز کے کون سے سُر کو اس کی حقیقی آواز سمجھیں۔ مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے دوٹوک موقف اور اس عزم کے اظہار کے بعد کہ وہ اپنی سرزمین پر دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے کسی بھی گروہ، جماعت یا فرد کو قرار واقعی سزا دیے بغیر پیچھے نہیں ہٹے گا، فتنۂ خوارج، فتنۂ ہندوستان اور دیگر دہشت گرد گروہوں نیز طالبان رجیم میں شامل ان کے سرپرستوں میں متعدد اختلافات اور تنازعات رونما ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں طالبان مخالف وہ گروہ جو ایک عرصے سے ایسے ہی موقع کے انتظار میں تھے، یہ محسوس کرتے ہوئے کہ پاکستان کے ساتھ ٹکر لینے کی صورت میں طالبان رجیم کے جوڑ ٹوٹ جائیں گے، افغانستان میں ماضی کی مانند نئی صف بندیوں کا آغاز کر چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال افغان عوام کے حق میں نہیں، وہ ایک طویل عرصے سے جنگوں کی مشکلات کا سامنا کرتے آئے ہیں اور اس وقت وہاں پائی جانے والی بے روزگاری، بیماریوں کی شرح، تجارت کے محدود وسائل اور تعلیم پر مکمل پابندیوں کے بعد خانہ جنگی اور بدامنی جیسی آفت ایک مرتبہ پھر منڈلا رہی ہے۔ افیون کی پیدوار اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے معاملات نے عالمی سطح پر بھی افغانستان کے حوالے سے پائے جانے والے منفی تاثر کو مزید تقویت فراہم کی ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ استنبول مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعا کی جائے اور طالبان قیادت کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ وہ بھارت کے مقاصد کا آلۂ کار بن کر پاکستان میں غیر ریاستی ملیشیاؤں کو پشت پناہی سے گریز کریں تاکہ وہ خود بھی اپنے ملک میں امن سے رہ سکیں۔

اس تمام صورت حال کو سوڈان میں جاری خانہ جنگی کو سامنے رکھ کر بھی دیکھنا چاہیے۔ ایک مضبوط اور مستحکم عسکری قوت کی عدم موجودگی میں وسائل اور معدنیات سے بھرپور سرزمین کس طرح مختلف ملیشیاؤں کا گڑھ بن جاتی ہے اور کیسے بے روزگار، ان پڑھ، بے شعور اور جذباتی نعروں کے پیچھے دوڑنے والے نوجوان اپنی ہی ریاست، عوام اور معاشر ے کے لیے تباہی کا سبب بن جاتے ہیں، یہ سب کچھ سوڈان، لیبیا اور دیگر ممالک میں پیش آنے والے عظیم انسانی سانحات کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جو عناصر پاکستان کی تقسیم یا یہاں سوڈان جیسی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا تعلق افغان سرزمین ہے۔ اس مسئلے کا حل اسی صورت ممکن ہے کہ افغان حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے بصورت دیگر مذاکرات بے مقصد رہیں گے اور پاکستان کو اپنے دفاع میں کوئی بھی قدم اٹھانے کا حق حاصل ہوگا۔