دوسری قسط:
سرفراز شاہ صاحب سے پوچھا کہ صوفی ازم یا تصوف کی بعض حلقے اتنے زور شور سے مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ شاہ صاحب نے اس کے مختلف اسباب بیان کئے، ان کا کہنا تھا: ہم ایک ایسے معاشرے میں رہے جو ہندو ازم سے زیادہ متاثر تھا تو ہمارے اندر سادھو ازم کی بہت سی چیزیں آگئیں، جو اسلام میں قابل قبول نہیں۔ جیسے انسان کئی کئی ماہ نہائے نہیں، جسم پر چیتھڑے لپیٹے پھرے، سر کے بال بے تہاشا بڑھے ہوں۔ ڈاڑھی جو کہ بڑی خوبصورت سنت ہے، وہ بے ترتیب بڑھ گئی، جو منہ میں آیا بول ڈالا وغیرہ۔ یہ چیزیں اسلام میں نہیں اور وہ اسے قبول نہیں کرتا۔ ایسے غیر اسلامی کاموں سے کچھ لوگ برہم ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ کہ جب کسی شخص یا کسی چیز کی بہت زیادہ تعریف کی جائے تو نفسیاتی طور پر ایک ردعمل آتا ہے۔ ہم جن سے متاثر ہوتے ہیں، جگہ جگہ اس کی تعریف کرتے ہیں اور اس میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں، اس بنا پر بھی ایک حلقہ ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ تیسرا فیکٹر یہ کہ ارباب تصوف میں سے بعض لوگ جو مخصوص حلیہ بنا کر پھرتے ہیں، وہ بھی اسلام میں کہیں ثابت نہیں ہوتا، اس پر فطری طور پر تنقید ہوگی۔ جبکہ بہت سے جعلی پیروں کی موجودگی بھی ایک مسئلہ ہے۔
چوتھا فیکٹر یہ کہ جو جینوئن فقیر لوگ ہیں، وہ اپنی صاف گوئی، حق گوئی کی وجہ سے بھی کچھ لوگوں کو ناراض کر دیتے ہیں۔ یوں متعدد عوامل ہیں۔ شاہ صاحب سے ایک سوال یہ کیا کہ بعض ناقدین سمجھتے ہیں کہ تصوف عوام کواستحصال برداشت کرنے اور مزاحمت کرنے کے بجائے صبر شکر کی کیفیت میں لے جاتا ہے۔ اسی لئے یہ حکمرانوں اور اشرافیہ کا پسندیدہ مکتب فکر رہا ہے۔ شاہ صاحب نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا، تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ایسے بہت سے صوفی، درویش اور صاحب تصوف ہیں جو جنگوں میں شہید ہوئے، انہوں نے جہاد کیا۔ اس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ صاحب تصوف صرف برداشت کی تلقین کرتا ہے۔ یہ ایک مغالطہ اور غلط فہمی ہے۔ دراصل درویش یہ کہتا ہے کہ انسان کو اپنوں کے لئے موم کی طرح نرم اور دشمنوں کے خلاف محاذ میں فولاد کی طرح سخت ہونا چاہیے۔ یہ سنت مبارکہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت برداشت اور غیر معمولی تحمل والے تھے، بے مثال برداشت کا مظاہرہ کیا، جبکہ جنگ میں آپ بے پناہ بہاد ر اور دلیر تھے۔ اس لئے ہمارے اہل تصوف یہ تلقین کرتے ہیں کہ مثال کے طور پرجنگ میں اپنے مشرقی پڑوسی (بھارت) سے واسطہ پڑ جائے تو فولاد کی طرح سخت ہو جا جبکہ اپنے ملک میں نرمی اور برداشت دکھائی جائے۔ سرفراز شاہ صاحب سے اس خدشے کا اظہار کیا کہ کہیں جدید مادی دور میں تصوف کا انسٹی ٹیوشن ختم تو نہیں ہو جائے گا؟ شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ ایسا بالکل نہیں ہوگا بلکہ جوں جوں ہم زیادہ مادی دور میں داخل ہور ہے ہیں، ہمیں ذہنی سکون کی اتنی ہی زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔ سکون ملتا ہے اللہ کی راہ پر چلنے سے، وہیں پر آدمی پناہ لیتا ہے۔ اس لئے تصوف زیادہ پروموٹ ہوگا۔
ایک تنقید جو طویل عرصے سے تصوف یا صوفیوں پر چلی آ رہی ہے کہ اسلامی تصوف اور دیگر مذاہب جیسے ہندوازم، بدھ ازم، عیسائیت وغیرہ کے روحانیت والوں میں فرق زیادہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر اسلامی تصوف کو دوسرے مذاہب سے کس طرح الگ کیا جائے؟ سرفراز شاہ صاحب نے اس کا یوں جواب دیا:میں نے ابھی پہلے بھی کہا کہ سادھو ازم کا اسلام یا اسلامی تصوف سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام میں تارک دنیا ہونے کا کوئی تصور نہیں۔ انصاف، پاکیزگی، نرم گوئی، نرم خوئی، تحمل، بردباری یہ سب خاصہ ہے ایک مسلمان کا۔ سنت مبارکہ بھی یہی ہے۔ اگر مسلمان اللہ کی راہ پر چلتا ہے، تو اس کے اندر یہ چیزیں سب سے پہلے پیدا ہوتی ہیں۔ سنت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اس کے سامنے اولین حیثیت رکھتی ہے۔ میں پچھلے دنوں ایک تحریر پڑھ رہا تھا جس میں صاحب مضمون نے لکھا کہ حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا تقریباناممکن ہے۔ اس لئے اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم قرآن پر سو فی صد عمل کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو فالو کر لیا جائے۔ میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ قرآن کا عملی نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بھرپور زندگی گزاری ہے، دنیاوی بھی اور دین میں تو ظاہر ہے ان سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں۔ تصوف یا اسلامی تصوف کا تمام تر زور ہی سنت مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کا ہے۔ یوں اسلامی تصوف اپنی بنیاد اور فکر میں دوسرے سب مذاہب سے مختلف اور منفرد ہے، اس کا محور سنت مبارکہ اور قرآن ہے۔
میرا ایک سوال یہ تھا، اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ تصوف انسٹی ٹیوشن کی شکل میں کیوں نہیں؟ سرفراز شاہ صاحب کا کہنا تھا، ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ فقیر لوگ بکھرے ہوئے مختلف جگہ پر ہوتے ہیں، وہاں پر وہ اپنا حلقہ بنا لیتے ہیں۔ بہت سے اللہ والے ویسے بھی دنیا اور بھیڑ بھاڑ سے دور بھاگتے ہیں، اس لئے وہ اسے انسٹی ٹیوشنلائز نہیں کرتے۔ ان کا مقصد لوگوں میں مقبول ہونا، مشہور ہونا تو ہوتا نہیں۔ تصوف ہمیشہ غیر رسمی انداز میں چلا اور ایسا ہی رہے گا۔ ابتدا میںاس کی کچھ رسمی شکل تھی، مگرتب اس کے مقاصد کچھ اور تھے۔
ایک بات کہی جاتی ہے کہ صوفی مراقبہ دراصل مشاہدہ حق ہوتا ہے، اس کے حوالے سے سوال پر سرفراز شاہ صاحب کا جواب تھا، یہ چیزیں انسان کے کنٹرول کی نہیں ہیں، کرامات کا سرزد ہونا یا خواب میں بزرگوں کی زیارت۔ یہ انسان کے اختیار میں نہیں اور اس کی خواہش بھی نہیں کرنی چاہیے۔ اس لئے کہ جس نے اس کی خواہش کی، وہ تمام زندگی بھٹکتا رہا، اسے کچھ بھی نہیں مل پایا۔ جس آدمی نے اللہ کو پکارا، صرف اس لئے کہ میرا رب پکارے جانے کے لائق ہے۔ اس کے سوا کوئی اور غرض لالچ اس بندے میں نہیں، لاشعور میں بھی نہیں۔ تو ایسے بے غرض لوگوں کو بہت کچھ عطا ہوجاتا ہے۔ البتہ عام طور سے مراقبے میں چونکہ ہم دنیا سے کٹ گئے ہوتے ہیں، پورے خشوع وخضوع سے رب تعالی کے حضور فوکس کئے بیٹھے ہوتے ہیں۔ رب کے حضور کہا ہے رب پر نہیں۔ تب دنیا کے خیالات وہاں سے دور ہوتے ہیں تو جو شاعرانہ مبالغہ ہے اس کے تحت ممکن ہے کوئی اسے مشاہدہ حق کہہ بیٹھے۔
مجھے شاہ صاحب کی اس بات سے یہ سمجھ آیا کہ تصوف میں تمام تر عبادات، ریاضت بغیر کسی طمع، لالچ، غرض کے ہونی چاہئیں۔ یہ خیال نہ آئے کہ اس کے نتیجے میں مجھے فلاں روحانی قوت حاصل ہو جائے گی یا کشف ملے گا۔ ایک دوست نے مجھے شاہ صاحب سے سوال پوچھنے کی درخواست کی تھی، وہ چاہتے تھے شاہ صاحب بتائیں کس خانقاہی سلسلے میں بیعت کی جائے؟ شاہ صاحب نے مسکرا کر جواب دیا، میں جو مشورہ دوں گا، وہ شاید کچھ لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا، مگر میرے خیال میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں بیعت ہو جانا چاہیے۔ سنت مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فالو کریں اور کامیاب ہوجائیں۔ شاہ صاحب کی بات سن کر دم بخود رہ گیا۔ بات ان کی اصولی اور بنیادی تھی کہ مرکز اور محور تو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے، اصل سلسلہ ہی انہی کا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منور سیرت ہی اصل روڈ میپ اور ماڈل ہے۔ اس پر فوکس رکھنا چاہیے۔ آج کے پرفتن اور گروہوں کے دور میں یہ باتکہنا اور سمجھنا کتنامشکل ہوگیا ہے۔ صوفی اور عامل میں کیسے فرق کیا جائے؟ اس سوال پر شاہ صاحب کا جواب بڑا واضح تھا۔ کہنے لگے، کرامت سرزد ہوتی ہے، دکھائی نہیں جاتی۔ جو شخص کرامت دکھا رہا ہے، شعبدہ بازی کا مظاہر ہ کر رہا ہے، وہ صوفی نہیں۔ فقیر تو کرامت سے دور بھاگتا ہے۔ جو آدمی آپ کو کرامت دکھا رہا ہے، وہ یقینا جینوئن نہیں۔ پھر فقیر کے ہاں عاجزی بہت ہوتی ہے، بلند بانگ دعوے نہیں۔ جہاں بلند دعوے ہوں، وہ فقیر نہیں۔ جو آدمی آپ کوکھینچنا چاہتا ہے، وہ صوفی یا فقیر نہیں ہوسکتا۔ فقیر تو آپ کو دھکے دے گا اپنی طرف سے، وہ آپ کو رب کی طرف دھکیلے گا۔ یوں صوفی اور عامل میں فرق آسان ہے۔

