پاک افغان کشیدگی کے بین الاقوامی اثرات اور نتائج

پاک افغان مذاکرات ناکامی سے دوچار ہو چکے ہیں تاہم اعلیٰ سطحی حکام کے مطابق بات، چیت کی بحالی اور امن کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی جائے گی تو پاکستان اس کی حمایت کرے گا۔ متوقع طور پر یہ سنجیدہ کوشش دوست ممالک کی مشترکہ کاوش ہو سکتی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے پاک، افغان کشیدگی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ترک وزیرِ خارجہ حاکان فیدان کی قیادت میں ایک اہم وفد کو پاکستان پہنچنے کا حکم دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ایک حوصلہ افزا خبر ہے تاہم دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی کا بظاہر کوئی فوری حل قرینِ قیاس نہیں کیوں کہ ایک جانب پاکستان اپنے اس موقف پر اٹل ہے کہ وہ افغان سرزمین سے اپنے خلاف ہونے والی کسی بھی دہشت گردی، شرپسندی اور جہاد کے نام پر فساد پھیلانے کی کوشش کا سختی اور طاقت سے جواب دے گا تو دوسری جانب طالبان حکومت کی جانب سے بھی ایسے اقدامات اور بیانات کا سلسلہ جاری ہے جو کہ جلتی پرآگ کے مترادف سمجھے جا سکتے ہیں۔ طالبان حکومت کے ترجمان کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ ایک بیان میں دونوں ملکوں کے درمیان جغرافیائی حد بندی کے لیے ڈیورنڈ لائن کے نام سے وضع کردہ سرحدی تقسیم کو ایک مرتبہ پھر متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس قسم کے بیانا ت دراصل پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے پیش کردہ اس موقف کی تائید ہیں کہ افغان طالبان کی صفوں میں غیر ملکی ایجنڈے پر کاربند افراد موجود ہیں جودونوں ملکوں کے درمیان امن کے قیام میں بنیادی رکاوٹ کا درجہ رکھتے ہیں۔

اگر حالات و واقعات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے ساتھ معاملات میں طالبان رجیم کا رویہ ایک سنجیدہ اور ذمہ دار ریاست کا عکس دکھائی نہیں دیتا۔ طالبان انتظامیہ میں موجود کچھ خاص افراد شاید اس صورت حال سے ذاتی فوائد سمیٹ رہے ہیں لیکن ان کی غیر ذمہ داری کی بھاری قیمت افغان عوام کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں پیش کی گئی مختلف رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان عوام کی اکثریت کو اس وقت شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ بے بسی کی حالت میں اناڑی حکمرانوں کی حماقتوںکو برداشت کر رہے ہیں۔ کئی صوبے عملی طورپر مرکز سے لاتعلق ہیں۔ عمال کی سختی حد سے متجاوز ہوتی جا رہی ہے۔ لوگوں کو علاج معالجے کے حوالے سے بھی تکالیف کا سامنا ہے۔ سرِدست وہ معاشی تنگی اور سر پر پہنچ جانے والے سخت ترین موسم سے پریشان ہیں۔ ان کی بڑھتی ہوئی مشکلات کا بنیادی سبب پاک، افغان کشیدگی ہے جس کی وجہ طالبان انتظامیہ کا غیر منطقی، خلافِ عقل و دانش اور تعصب پر مشتمل رویہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاک، افغان سرحدی تجارت کی بندش سے افغانستان کو اب تک بیس کروڑ ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچ چکا ہے اور تجارت کی بندش نے کم و بیش ایک لاکھ سے زائد افراد کی روٹی روزی یکسر مفقود کر دی ہے۔ ایک ماہ سے زائد عرصے پر محیط اس بندش کی وجہ سے دیہی علاقوں میں سرمائے کا بہاؤ رک گیا ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں اور بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ افغانستان زیادہ تر زرعی برآمدات پر انحصار کرتا ہے اور اس کا ستر فیصد ذریعہ پاکستان ہی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی سرگرمیوں کے انجماد سے دونوں اطراف میں معاشی نقصان ہوا ہے تاہم افغانی تاجروں اور کاشت کاروں کو گہرے معاشی صدمات کا سامنا ہے۔ سرحدوں کی بندش کی وجہ سے پاکستان سے وسطی ایشیائی ریاستوں تک تجارتی گزرگاہیں بھی ویران ہو چکی ہیں۔ ٹرانسپورٹ اور ہوٹلوں کے کاروبار کو بھی خسارہ ہو رہا ہے۔ پاکستان سے افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ممالک یعنی تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور قزاقستان تک تجارت کا سلسلہ تھمنے سے ان تمام ممالک کی درآمدات و برآمدات کچھ متاثر ہوئی ہیں۔ یہ پاکستان کا نقصان بھی ہے کیوں کہ سی پیک جیسے بڑے اقتصادی منصوبے کا ایک مقصد وسطیٰ ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارتی و معاشی تعلقات کا فروغ اور جغرافیائی بنیادوں پر مشترکہ اقتصادی تعاون بھی تھا جسے اس وقت زک پہنچ رہی ہے۔

ان حالات میں قرینِ عقل و دانش صلح، امن اور بقائے باہمی کا راستہ ہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایک ملک پر مسلط حکمران ذاتی عناد سے آگے بڑھ کر کچھ سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہوں تو اس امر کا کیا علاج کیا جا سکتا ہے؟

پاک، افغان کشیدگی ایک جغرافیائی نوعیت کا مقامی تنازع یا محض معاشی مسئلہ نہیں رہا بلکہ ہر اعتبار سے ایک بین الاقوامی معاملہ بن چکا ہے۔ اس معاملے کی حساسیت بھارت کی بھرپور موجودگی کی وجہ سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ پاکستان کے خلاف بیان بازی سے لے کر فتنۂ خوارج اور فتنۂ ہند کو محفوظ ٹھکانے، امداد اور تعاون فراہم کرنے تک طالبان حکومت کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے جس کا تشکر کابل میں ایک بڑے مندر کی تعمیر کی اجازت دے کر کیا گیا ہے۔ بھارت کی اس کھیل میں موجودگی دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو ایک سرحدی مسئلے کی بجائے ایک گہرے تزویراتی تنازع میں تبدیل کر دیتی ہے۔ علاوہ ازیں اس تنازع میں ترکیہ، قطر اور ایران کی دل چسپی محض سطحی نوعیت کی نہیں۔ قطر اور ترکیہ دونوں ہی افغانستان میں الگ الگ دائروں میں اپنا کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں جبکہ ایران بھی افغان مسئلے سے لاتعلق نہیں رہنا چاہتا۔ قطر نے امریکا، افغان امن معاہدے اور دوستی میں کلیدی کردار ادا کر کے اپنی سفارتی قوت اور نرم طاقت کی اہمیت کو عالمی سطح پر تسلیم کروا لیا تھا۔ اس کے بعد قطر نے فلسطین، اسرائیل جنگ اور لبنان کے ساتھ تنازع میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ قطر نے طالبان کو مالی معاونت سے بھی نوازا اور اس وقت بھی طالبان کا سیاسی دفتر دوحہ ہی میں کام کر رہا ہے۔ اب پاک، افغان کشیدگی کو مؤثر طریقے سے حل کر کے قطر عالمی سطح پر اپنی سیاسی اور سفارتی اہمیت کو مزید اجاگر کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان میں قطر کے ممکنہ اقتصادی مفادات بھی موجود ہیں۔ دوسری طرف ترکیہ افغانستان میں موجود ترکمن، تاجک اور ازبک اقوام کے ساتھ اپنے نسلی ولسانی رشتوں، ترک دنیا کے پھیلاؤ اور ہم خیال ممالک کے ساتھ وسیع تر دوستی کے مشن کے مطابق افغانستان میں اپنا کردار چاہتا ہے جس کے تحت وہ افغانستان کی تعمیرِنو میں اپنی تعمیراتی صلاحیت اور صنعت و حرفت کی مہارتوں کا اظہار کر سکے گا۔ ایران کے بھی افغانستان میں گہرے لسانی، مذہبی اور دفاعی نوعیت کے مفادات موجود ہیں۔

کشیدہ حالات کے باوجود پاکستان کو اپنے دوست ممالک کے مفادات کا لحاظ بھی رکھنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ افغان سرزمین پر پنپنے والی بھارت کی تزویراتی سازشوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی حکمتِ عملی بھی مرتب کرنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محتاط لیکن کڑے فیصلے ناگزیر قرار دیے جا رہے ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ افغان قیادت نے اگر ہوش کے ناخن نہ لیے تو بہت جلد وہاں بنیادی نوعیت کی سیاسی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ یہ تبدیلی پاک، افغان کشیدگی کے بین الاقوامی اثرات کا منطقی نتیجہ قرار دی جا سکتی ہے۔