عالمِ اسلام کا اثاثہ، مفتی محمد تقی عثمانی

دوسری قسط:
جناب مفتی محمد تقی عثمانی کی خدمات کا احاطہ نہ یہاں ممکن ہے، نہ میں اس کا اہل ہوں۔ یہاں تو صرف اْمت مسلمہ کیلئے ان کی بیش قیمت خدمات میں سے چند ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ کسی بڑی علمی شخصیت کے بلند مقام و مرتبے میں دو باتیں بنیادی اہمیت کی ہوتی ہیں۔ اوّل اس کا مزاج، دوم طریقہ کار۔ جناب مفتی محمد تقی عثمانی کے مزاج کے چار بنیادی عناصر نے انہیں عالمِ اسلام میں ہر دلعزیز شخصیت بنایا ہے۔ عمیق علم، خیرخواہانہ اخلاص، فطری عاجزی اور ذہنی اعتدال۔ یہ چار عناصر ہوں تو محبوب مسلمان بنتا ہے۔ ایک عام قاری کی نظر سے دیکھتا ہوں تو اْمتِ مسلمہ کے اتحاد کی شدید تڑپ، اَنتھک محنت، اپنے فقہی مسلک پر قائم رہتے ہوئے تمام فقہی مسالک کا احترام، اور انہی میں سے جدید مسائل کے حل کی تلاش ان کا راستہ رہا ہے۔ تحریک پاکستان کے عظیم رہنما مولانا شبیر احمد عثمانی کا یہ قول ان کے پیش نظر رہتا ہے کہ حق بات، حق نیت کے ساتھ حق طریقے سے جب بھی کہے جائے گی، بے اثر نہیں رہ سکتی۔ وہ اس قول کی عملی مثال ہیں۔

امت کے اتحاد و اتفاق کی شدید خواہش انہیں ورثے میں ملی ہے۔ تحریک ریشمی رومال کے بانی قائد شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے قید و بند سے رہا ہو کر فرمایا تھا کہ اسیری میں مَیں نے یہ سمجھا ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ حالتِ زار کی دو بنیادی وجوہات ہیں؛ ترکِ قرآن کریم اور مسلمانو ں کا باہمی اختلاف و انتشار۔ اسی طرح جناب تقی عثمانی کے والد گرامی مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب نے ”وحدتِ امت” کے نام سے ایک بھرپور تقریر کی تھی جو رسالے کی صورت میں طبع ہوئی، تراجم ہوئے اور پوری دنیا میں اسے سراہا گیا۔ یہی مشن جناب مفتی تقی عثمانی کا ہے۔ مختلف فقہی، طبقاتی، سیاسی اور مسلکی گروہوں کو ایک دوسرے کے قریب تر کرنے کا جیسا اَنتھک کام انہوں نے کیا، اس کی دور دور مثال نہیں ملتی۔ اپنے اکابرین کا اپنے اور دیگر فقہی مشارب کے بارے میں قول ان کا بھی مشرب ہے کہ ”اپنا راستہ درست ہے جس میں خطا کا امکان ہے۔ اور مخاطب کا راستہ درست نہیں ہے جس کے درست ہونے کا امکان موجود ہے”۔ یہ وہ معتدل نقطہ نظر ہے جس میں دوسروں کی آرا کا احترام کرتے ہوئے نیک نیتی کے ساتھ اپنے دلائل پیش کرنے کی پوری گنجائش موجود ہے۔ تو اتحادِ امت کا داعی جو شخص دوسرے کی آرا کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے اپنے موقف کو مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کر سکے، وہ ہر دلعزیز کیوں نہ ہو۔

گزشتہ چند صدیوں میں مغرب کی عسکری اور نظریاتی یلغار نے جہاں ایک طرف مسلم ممالک میں مسلمانوں کو اقتدار سے محروم کیا، وہیں مسلمان علماء کیلئے بیک وقت بہت سے محاذ کھل گئے۔ حکومت سے محرومی ہی بڑا گھاؤ تھا لیکن اسی کے ساتھ مغربی نظام تعلیم، نظام سیاست، نظام عدل، نظام معیشت اور نظام تہذیب و تمدن نے تیزی سے معاشروں میں سرایت کرنا شروع کیا۔ مشرق سے مغرب تک تمام مسلم ممالک ان کی زد میں تھے۔ زبانوں اور ثقافتوں تک کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے۔ نظام تعلیم نے وہ بہت سے ذہنی غلام پیدا کیے جو یا تو مغرب کی اندھی تقلید کے قائل تھے یا مرعوبیت کی وجہ سے اقبال کے الفاظ میں مشرق میں تقلیدِ فرنگی کا بہانہ ڈھونڈتے تھے۔ یہ بڑا چیلنج تھا کہ ان سب محاذوں پر مضبوط مورچے موجود ہوں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی کہ مغرب کی قابلِ تسلیم خصوصیات کو اپناتے ہوئے بھی اس تہذیب کی بنیادی فکری کجی کو اجاگر کیا جاتا رہے۔ اندرونی اختلافات کو کم کرکے بیرونی یلغار کا مقابلہ پہلی ترجیح تھی۔ نسل در نسل اس جنگ کے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب تک آتے آتے سب محاذوں پر شدت بھی آچکی تھی، ان کی نوعیتیں بھی بدل چکی تھیں اور نئے محاذ بھی کھل چکے تھے۔ آپ عم مکرم کی تصانیف اور تحریریں دیکھیں تو وہ ہر محاذ پر نبرد آزما نظر آتے ہیں۔ تعلیم، سیاست، انصاف، معیشت، تمدن، ہر موضوع پر انہوں نے غیرمعذرت خواہانہ انداز میں کھل کر بات کی۔ یہ آغاز اس زمانے میں ہوا جب بیشتر مغربی افکار کو ٹھیک سے سمجھنے والے بھی کم کم تھے۔ جناب مفتی محمد تقی عثمانی کی عربی، اردو، انگریزی اور فارسی پر اعلیٰ دسترس نے انہیں براہِ راست ان مشرقی اور مغربی ماخذ سے نہ صرف استفادے کا موقع فراہم کیا بلکہ ان کی تحریروں کو ان حلقوں تک بھی پہنچایا جو اردو سمجھنے سے محروم تھے۔ برصغیر کے ایک عالم کا اہلِ عرب سے فصیح و بلیغ عربی میں کلام کرنا عربوں کیلئے بھی ایک اچنبھے کی بات تھی اور بات محض زبان کی نہیں اس کے پیچھے مستحضر علم کی تھی۔ چنانچہ عرب علما اور عمائدین کے دلوں تک رسائی ہو گئی۔ اسی طرح قرآن کریم، تفسیر کے انگریزی تراجم، انگریزی تحریروں اور تقریروں نے ان لوگوں کے دلوں کے دروازے کھولے جو محض انگریزی بولنے اور سمجھنے پر قادر تھے۔ فقہ کے عمیق علم کے ساتھ ایل ایل بی کی امتیازی حیثیت میں ڈگری، مروجہ مغربی قوانین پر گرفت اور شرعی عدالتوں میں بطور منصف کام کے وسیع تجربے نے بھی انہیں عالم اسلام میں ایک منفرد عالم کی حیثیت دے دی۔ چنانچہ ہر میدان میں پاکستان کے اندر اور پورے عالم اسلام میں ان کی غیرمعمولی پذیرائی ہوئی اور ہر شعبے کے ماہرین ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ وہ ان سب حوالوں سے بھی پاکستان اور عالم اسلام کا اثاثہ ہیں کہ ان کے فیصلوں کا وزن محسوس کیا جاتا ہے اور ان کے اثرات دور تک پہنچتے ہیں اور پاکستان کی قدر و منزلت ان ملکوں میں بڑھتی ہے۔

صرف دو نظاموں یعنی نظام عدل اور نظام معیشت کو لے لیجیے۔ ان کے ایسے کام نظر آئیں گے جن کی دو ر دور تک کوئی نظیر نہیں ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت کے دوران جناب تقی عثمانی بہت سے مروج قوانین کو اسلامی شکل میں ڈھالنے کا کام کرتے رہے۔ پھر انہوں نے وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شرعی عدالت کے منصف کی حیثیت میں بہت سے وہ فیصلے صادر کیے جن کی وجہ سے بہت سے قوانین اسی راستے سے بدلتے چلے گئے۔ سود کی حرمت پر ان کا سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت میں فیصلہ انہی فیصلوں میں سے ایک تھا۔ یہ سب فیصلے ان کی کتاب ”عدالتی فیصلے” میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ عالم اسلام میں قوانین سازی کے جو تاریخی کام انجام دیے ان کی تفصیل ان کی کتابوں میں موجود ہے۔ اسلامی معاشیات کے میدان میں تو انہوں نے ایسے عظیم کام کیے ہیں جن کی مثال ہی نہیں ملتی۔ تن تنہا اس ایک فرد نے سودی معیشت کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ جب وہ اس میدان میں آئے تو ایک طرف مغربی نظامِ معیشت سے کھلی جنگ تھی، دوسری طرف ان مرعوبین سے، جو بینکوں کے سودی نظام کو سود سمجھتے ہی نہیں تھے۔ علمائے کرام سود کو بڑا گناہ بتاتے تھے لیکن ایسا متبادل نظا م تخلیق کرنا جو قابلِ عمل بھی ہو، ایک الگ بات تھی۔ یہ پہاڑ کاٹ کر جوئے شیر نکالنے سے بھی مشکل کام چچا جان نے اکیلے انجام دیا اور اللہ نے اس کام میں ایسی برکت ڈالی کہ مشرق سے مغرب تک اسی نظام کو اپنا کر بڑے بڑے مالیاتی ادارے قائم ہونے لگے، حتیٰ کہ ڈک مورس نے جو 20سال صدر کلنٹن کا مشیر رہا، اپنی کتاب Catastrophe میں جناب مفتی محمد تقی عثمانی کا نام لے کر لکھا کہ یہ اور ان کی طرح کے لوگ ہمارے نظام کیلئے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ اسی سے آپ جان لیجیے کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے سودی نظام پر کتنی کاری ضرب لگائی۔

ذرا دیکھیے! میرا خیال تھا کہ دو کالموں میں پوری شخصیت کا احاطہ نہ سہی، کم از کم ان بے مثال خدمات کا ذکر کرسکوں گا جن کی وجہ سے دنیا چچا جان کو پاکستان اور عالم اسلام کا اثاثہ سمجھتی ہے۔ لیکن پاکستان کیلئے کاموں کا ذکر تو ایک طرف رہا، عالم اسلام کیلئے چند باتوں کا ذکر بھی پورا نہیں ہو سکا۔ اپنی محدودیت کے پیش نظر میں اس ارادے کو اپنی ناتمام خواہشوں میں شمار کرتا ہوں۔ میر نے کہا تھا نا!
موقوف غمِ میر کہ شب ہو چکی ہمدم
اب اور کسی روز یہ افسانہ کہیں گے