سلامتی کو لاحق خطرات اور قومی اتحاد و اتفاق کی ضرورت

ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر منڈلاتے خطرات اور پاکستان کے وجود پر حملہ آور ہونے والے خوارج کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اس وقت قومی وحدت ایک ناگزیر امر کا درجہ رکھتی ہے جس کی خاطر تمام سیاسی و مذہبی حلقوں اور عوامی اثر و رسوخ رکھنے والی جماعتوں کو ایک ہی قومی بیانیہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی مغربی سرحدوں پر روزانہ ہی خوارج کے جتھے مختلف مقامات سے دراندازی کی کوششوں میں ملک کے محافظوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ پاکستان کی قیادت واضح کر چکی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر حملہ برداشت نہیں کرے گی اور ہر درانداز، دہشت گرد، خارجی اور ملک دشمن گروہ کو سخت جوابی کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا تاہم اس کے باوجود پاک افغان سرحدی تقسیم کو قبول نہ کرنے والے عناصر اپنی شرانگیزی سے باز نہیں آرہے حالانکہ تاریخی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ دراصل افغانستان کی اپنی تقسیم ہی انگریزوں اور روس کے سابقہ حکمرانوں کے درمیان ایک اتفاق کا نتیجہ تھا اور اس تقسیم پر افغانوں کی قیادت نے مکمل اطاعت اختیار کرلی تھی۔ ماضی کا یہ منظر کسی قدر تبدیلی کے ساتھ آج بھی دہرایا جا رہا ہے۔ اطلاعات اور واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی مودی سرکار اور افغانستان کی طالبان حکومت کے درمیان پاکستان مخالف یک نکتوی ایجنڈے پر مکمل یکجہتی ہو چکی ہے۔ بھارت کے ساتھ امریکا کے دفاعی معاہدے میں دس سالہ توسیع اور بھارت اور اسرائیل کے درمیان جاری تزویراتی تعاون کے بعد یہ امر طے ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت اس وقت قومیت، لسانیت اور علاقائیت کے بدترین تعصب اور ماورائیت پر مشتمل کسی زعم کا شکار ہو چکی ہے اور اسی بنیاد پر قندھار سے لاہور پر قابض ہونے اور اسلام آباد کو خاکستر کر دینے کے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔

یہ امر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ مملکتِ خداداد پاکستان لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کے بعد ایک عظیم نعمت کی صورت میں خطے کے مسلمانوں کو حاصل ہوئی جس میں کروڑوں مسلمان آزادی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس ریاست کو رب العالمین نے ایک ایسی عسکری قوت سے نوازا جو زمانے کے لحاظ سے کم و بیش گزشتہ چار، پانچ سو سالوں میں مسلمانوں کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی عسکری قوت کا آخری دور دنیا میں سلطنتِ عثمانیہ کے قبل از زوال میں دیکھا گیا یا اورنگزیب عالم گیر کے ہاتھوں مسلمانوں کی اس سطوت کا ظہور ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کا یہ بازوئے شمشیر زن روز اول سے اسلام دشمن اور مسلم کش طاقتوں کا اولین ہدف رہا ہے۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد سے اب تک مسلمانوں کے اس عسکری مرکز کو تباہ و برباد کرنے کی سازشیں مسلسل کارفرما رہی ہیں۔

انتہائی افسوس ناک طور پر پڑوسی ملک افغانستان جو کہ ماضی میں بھی پاکستان کے خلاف ایک بیس کیمپ کے طورپر استعمال ہوتا تھا، ایک مرتبہ پھر اسی انداز میں بروئے کار لایا جا چکا ہے اور اس مرتبہ یہاں سے مذہبی چہرے کے ساتھ لادینی نظریات پر کام کرنے والی بی ایل اے جیسی تنظیموں کی پشت پناہی بھی کی جا رہی ہے۔ فریب میں لپٹے ہوئے نظریات کا ایک سیلاب ہے جو کہ مشرق کی سمت سے ایک ہلاکت خیز یلغار کے آغاز سے قبل مغربی سرحدوں کے دوسری جانب سے اسلامیانِ پاکستان کی فکر کو مسموم کرنے کے لیے امنڈتا چلا آرہا ہے۔ کسی بڑے معرکے سے قبل اس نظریاتی یلغار کا سدِباب بھی اہمیت رکھتا ہے۔ اس موقع پر یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ خوارج کی تاریخ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف کفر کے ہاتھوں میں استعمال ہونے کی رہی ہے۔ اس صورت حال میں ملک کے دینی حلقوں کو اپنی فکری بیداری کا ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں کہ محض حکومتی سطح کے اقدامات سے اس کا حل تلاش کرلیا جائے گا۔ فی الواقع یہ پوری قوم کے اتحاد کا متقاضی ہے۔ یہ امر لائقِ تحسین ہے کہ سیاسی و عسکری سطح پر اس معاملے کی حساسیت کا ادراک کیا جا رہا ہے۔ فیلڈ مارشل جنر ل عاصم منیر کی پشاور میں قبائلی زعما کے ساتھ ملاقات اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتا ہے۔ قبائل کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور قائدین سے بھی عسکری حلقوں کو رابطہ کرنا چاہیے تا کہ انھیں صورت حال کی نزاکت کا احساس دلایا جا سکے۔

اس وقت سماجی روابط کے جدید ذرائع پاکستان مخالف نظریاتی جنگ کا سب سے بڑا میدان بنے ہوئے ہیں۔ اس جنگ میں پاکستان کے بیانے کو نظریاتی بنیادوں پر مضبوط اور مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام دینی حلقوں کے تعاون اور ان کی حمایت کے بغیر متوازن انداز میں نہیں ہو سکتا۔ اس امر کے لیے جہاں پاکستان کی سیاسی، دفاعی، عسکری، جغرافیائی اور نظریاتی اہمیت کو بیان کرنے کی ضرورت ہے وہاں حکومتی سطح پر پالیسیوں میں دین اسلام کی ترجیحات کو بروئے کار لانا سب سے اہم تقاضا ہے۔ حکمرانوں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے اور مذہبی حلقوں سے خوامخواہ محاذ آرائی سے اجتناب برتنا چاہیے۔ حکومت کو موجودہ حالات میں چومکھی لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت ملک کا اہم ترین مسئلہ اس کی آزادی کا دفاع اور عوام کا تحفظ بن چکا ہے۔ لہٰذا سیاسی و عسکری قیادت کو فی الفور ایسے اقدامات کرنا چاہئیں جو ملک کے داخلی اتحاد کو مستحکم بنانے کا موجب ثابت ہوں۔ داخلی انتشار بیرونی جارحیت کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے کے مترادف ہے۔

ترکیہ میں غزہ جنگ بندی سے متعلق مشاورتی اجلاس

غزہ میں جنگ بندی کے باوجود اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام پر حملوں کا سلسلہ کسی نہ کسی طور جاری ہے۔ انسانیت کا مجرم نیتن یاہو غزہ سے مزاحمت کو مٹانے کے عزائم رکھتا ہے۔ ان حالات میں جنگ بندی کے فوائد کو قائم رکھنے کے لیے ترکیہ میں منعقد ہونے والے کثیر ملکی مشاورتی اجلاس اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان اس اجلاس میں غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلاپر زور دے گا۔ پاکستان کو اس حوالے سے امریکی دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے جیسا کہ ٹرمپ کے حالیہ بیانات میں پاکستان مخالف عنصر بڑھ رہا ہے تاہم امید ہے کہ پاکستان کسی بھی صورت فلسطینی حریت پسندوں کی مخالفت میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔ جہاں تک غزہ میں امن فوج کی تعیناتی کی بات ہے تو یہ عمل ترکیہ، سعودی عرب اور قطر کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کے یقینی تحفظ کے اہم ترین فریضے کو سامنے رکھتے ہوئے طے پانا چاہیے۔ امریکا بنیادی طورپر اسرائیل کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ دو ریاستی حل پر مشتمل امن منصوبہ فی الحال دور دور تک عمل میں آتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس لیے مسلم امہ کو فلسطینی کاز پر متحد رکھنے کے لیے گہری سیاسی بصیرت، ایمانی فہم و فراست اور عسکری تدبر کو بروئے کار لانا چاہیے۔