ترک میڈیا کے مطابق قابض اسرائیل کی نام نہاد پارلیمنٹ نے دو انتہائی متنازع بلوں کی ابتدائی منظوری دے دی ہے، ایک بل فلسطینی قیدیوں کیلئے سزائے موت کی اجازت دیتا ہے جبکہ دوسرا حکومت کو عدالتی منظوری کے بغیر غیر ملکی میڈیا اداروں کو مستقل طور پر بند کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ فلسطینی مرکز برائے دفاع اسیران نے کہا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کیلئے سزائے موت کے قانون کی منظوری اس بات کی علامت ہے کہ قابض ریاست اپنی ریاستی دہشت گردی، خونریزی اور درندگی کو قانون کا نام دے کر جائز قرار دینے کی راہ پر گامزن ہے۔ادھرغزہ جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیل کے حملے تھم نہ سکے، اسرائیلی فوج نے جنگ بندی کے دوران 31 میں سے 25 دن حملے جاری رکھے۔ جنگ بندی کے بعد صہیونی حملوں میں 242 فلسطینی شہید، 622 زخمی ہوئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
غیر قانونی اور غیر انسانی قابض گروہ اسرائیل باشندگان زمین اہل فلسطین کا ناطقہ بند اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹا ڈالنے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے اور یہ مشقِ ستم سنہ 1948 سے پیہم جاری ہے۔ نام نہاد قانون، سیاسی، سفارتی، نفسیاتی سے لیکر فوجی اور فزیکل ٹارچر تک جو بھی طریقہ کار اس سے بن پڑتا ہے، وہ فلسطینیوں کو مٹا دینے کیلئے اختیار کرتا آرہا ہے۔ نام نہاد پارلیمنٹ کے ذریعے نئی قانون سازی بھی اسی جبر کا تسلسل ہے جو پون صدی سے زائد عرصے سے شدت کے ساتھ جاری ہے۔ ہر حکومت اور ہر انتظامیہ فلسطینیوں کے خلاف ہر نئے دن ایک نئی سزا، نئی سختی، نئی جارحیت اور نئی بہیمیت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قابض طاقت کی تمام تر توجہ کا ارتکاز اسی پر رہتا ہے کہ کس طرح فلسطینیوں کیخلاف شکنجہ پہلے سے زیادہ شدت سے کس دیا جائے، کیسے ان پر نئی سختیاں اور پابندیاں لاگو کر دی جائیں اور کیسے فلسطین کا مزید کچھ حصہ ہڑپ کرلیا جائے۔ ہر حکومت اور ہر انتظامیہ اس دوڑ میں اپنی پیشرو سے بڑھ کر ”کارکردگی” دکھانے میں کوشاں رہتی ہے تاکہ اسے قابض ٹولے میں زیادہ اعتبار اور اعتماد حاصل رہے، ”کارکردگی” میں ذرا بھی جھول، کمی اور کسر رہ جائے تو انہیں خدشہ رہتا ہے کہ کہیں قدرت و اختیار چھن نہ جائے، چنانچہ ہر ایک کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ فلسطینیوں پر نت نئے انداز میں ظلم سے اپنی ”کارکردگی” ثابت کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں ہر آنے والی اسرائیلی حکومت پہلے سے زیادہ تند، سخت، شقی اور جارح ثابت ہوتی ہے اور اس عمل میں اسرائیل کی ہر انتظامیہ اور حکومت کو اس کے بیرونی آقاؤں بالخصوص امریکا کی بھرپور سپورٹ حاصل ہوتی ہے۔
اسرائیل کی جو بھی حکومت اور انتظامیہ جس انداز کی بھی شدت دکھائے اور فلسطینیوں کو ختم کرنے کیلئے جو بھی پالیسی لائے اور اس پر عمل کیلئے اسے جتنی بھی اور جیسی بھی مدد درکار ہو، ایک اشارے پر امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کی جانب سے وہ مل جاتی ہے۔ اس سب کے باوجود اسرائیل اور اس کے آقاؤں کی امیدیں اب تک بر نہیں آسکیں، حوصلہ توڑنے، جسم مٹانے، وجود ختم کرنے اور تذلیل کا ہر غیر انسانی حربہ اختیار کرنے کے باوجود فلسطینی زیتون کے مضبوط درخت کی طرح اپنی زمین پر اپنی جڑوں سے پیوست کھڑے ہیں اور اسرائیل کو آج پون صدی بعد بھی تاریخ انسانی کا بدترین ظلم جاری رکھنا پڑ رہا ہے۔ تاریخ بن رہی ہے، اسرائیل کے منہ پر کالک لگ رہی ہے، اس کی رسوائیوں کے باب رقم ہو رہے ہیں، اس کی غیر انسانی اور بہیمانہ کارروائیوں کا حساب دفترِ تاریخ میں اکٹھا ہو رہا ہے اور ساتھ ہی فلسطینیوں کی مظلومیت، شہامت، صبر و ثبات اور اپنی زمین اور اپنی مٹی کے ساتھ خلوص و وفا کی داستانیں بھی رقم ہو رہی ہیں۔ دنیا آج بھی دیکھ رہی ہے کہ ستم گر کی ہر ظالمانہ ادا کے باوجود فرزندان زمین جرات، حمیت اور وقار کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور ظالم، قابض اور جارح اپنی تمام طاقت، قہر و ظلم کے باوجود دنیا کے ساتھ آنکھ ملانے سے قاصر ہے۔ تاریخ میں ان دو کے ساتھ ان کا کردار بھی درج ہو رہا ہے جو دونوں میں سے کسی ایک ساتھ ہیں، تاریخ دیکھ رہی ہے کہ کون ظالم کا ساتھ دے رہا ہے اور کون مظلوم کے ساتھ ہے اور کون خاموش تماشائی ہے یا بے حسی میں گم ہے اور ان سب کا تاریخ اور وقت مل کر ٹھیک ٹھیک حساب لیں گے۔
تاریخ اور وقت کا حساب اپنی جگہ، مگر مسلم دنیا، عالمی برادری اور عالمی اداروں کے بھی کچھ فرائض ہیں، قابض طاقت کی جانب سے محکوم قوم کیخلاف انسانیت سوز قوانین لاگو کرنا بدترین نسل پرستی اور امتیازی عمل ہے، یہ ایک قوم کو غلام بنانے اور اس کے ساتھ بدترین غلامانہ برتاو رکھنے کے مترادف ہے، جس کی آج کی مہذب دنیا میں کوئی گنجائش نہیں، کم از کم دنیا کی کتابی اقدار، مسلمہ قوانین اور لکھے ہوئے اصولوں اور معاہدوں کے آئینے میں اس طرح کے اقدامات انسانیت کے خلاف جرم ہیں، مگر اس سب کے باوجود سب خاموش ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ فلسطینیوں کو مٹا ڈالنے کیلئے اسرائیل کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ فلسطینی قیدیوں کیلئے سزائے موت کے بل اور غیر ملکی میڈیا اداروں کو بند کرنے کی اجازت دینے والا بل دراصل اس مسلسل ریاستی دہشت گردی کا نیا باب ہے جو اسرائیل گزشتہ پون صدی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ اقدام اس حقیقت کا عکاس ہے کہ قابض طاقت اب نہ صرف ظلم کر رہی ہے بلکہ اپنے ظلم کو قانون کا لبادہ پہنا کر جائز ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔
ساتھ ہی یہ امر بھی نہایت تشویش ناک ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے باوجود اسرائیل غیر رسمی طور پر جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ آئے دن وہ جب چاہتا ہے غزہ کے کسی حصے پر حملہ کردیتا ہے اور بچوں، خواتین، بوڑھوں اور جوانوں سب کو بلا امتیاز اور بلا اشتعال نشانہ بنا دیتا ہے۔یہ کیسی جنگ بندی ہے؟ جنگ بندی کے ضامن طاقتیں اور ثالث کہاں ہیں؟ وہ کیوں اسرائیل کا نوٹس نہیں لے رہے؟ امریکا، جو جنگ بندی کا ضامن ہے اور جس کا صدر جنگ بندی کا کریڈٹ لیتے نہیں تھک رہے۔ امریکا اور جنگ بندی کے دیگر ضامنوں اور ثالثوں کی خاموشی برقرار رہی اور اسرائیل یکطرفہ طور پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کرتا رہا تو خونریزی ایک بار پھر شروع ہونے کا خدشہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسرائیل کی نام نہاد پارلیمان کی حالیہ قانون سازی سمیت اس کے تمام جابرانہ اور جارحانہ اقدامات کا فوری نوٹس لیا جائے اور اسے انسانی اقدار کا پابند کیا جائے، دنیا مزید خون بہنے اور انسانی قتل و غارت کی متحمل نہیں ہے۔

