دعوت و تبلیغ کے مقاصد اور دائرے

(تبلیغی جماعت کے ایک سہ روزہ کے دوران علماء کرام کی نشست سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰة۔ تبلیغی جماعت کے دوستوں کا شکر گزار ہوں کہ ضلع شیخوپورہ کے علماء کرام کی ایک بڑی تعداد سے اجتماعی ملاقات کا موقع فراہم کیا، اللہ تعالیٰ ان حضرات کو جزائے خیر سے نوازیں اور ہماری اس ملاقات کو دارین کے لیے سعادت کا ذریعہ بنائیں، آمین۔ دعوت و تبلیغ کے اس ماحول میں علماء کرام کو تین چار اہم امور کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔
(١) ایک یہ کہ اس وقت دنیا میں انسانی آبادی آٹھ ارب کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔ یہ آٹھ ارب انسان جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امتِ دعوت ہیں اور ان سب تک اسلام کی دعوت اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف و پیغام پہنچانا ضروری ہے۔ جو ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے ہی پہنچانا ہے، آسمان سے فرشتے تو اس کام کے لیے نہیں آئیں گے اور نہ ہی کسی اور مخلوق کو یہ کام کرنا ہے یہ بہرحال ہمارا ہی فریضہ ہے اور امت میں سب سے زیادہ یہ ذمہ داری علماء کرام پر عائد ہوتی ہے۔

میں اس حوالے سے دنیا کے موجودہ معروضی تناظر کے صرف ایک پہلو کی طرف آپ حضرات کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ان سات ارب انسانوں کو اپنے اپنے مذہب میں شامل کرنے کے لیے عالمی سطح پر دو بڑے مذاہب میں مقابلہ ہے۔ ایک طرف ہمارا یہ عزم ہے کہ پوری دنیا کو اسلام کے دائرے میں لانا ہے اور اس کے لیے مختلف افراد، طبقات اور حلقے سرگرم عمل ہیں۔ جبکہ دوسری طرف مسیحی مشینریاں یہی عزم لے کر مختلف ممالک میں کام کر رہی ہیں کہ ساری نسل انسانی کو مسیحیت کے دائرے میں لانا ان کی ذمہ داری ہے۔ دونوں کا فوکس آٹھ ارب انسانوں پر ہے اور پوری نسل انسانی ان کی دعوت کا دائرہ ہے۔ ان دو کے علاوہ کسی اور مذہب کے حضرات اس مقصد کے لیے اس درجے میں متحرک نہیں ہیں اس لیے آٹھ ارب انسانوں کو اپنے اپنے مذہب میں شامل کرنے کے لیے اصل مقابلہ اسلام اور مسیحیت میں جاری ہے۔

اس مقابلہ کی ایک تازہ جھلک یہ ہے کہ سوڈان جو مسلم اکثریت کا ملک چلا آرہا ہے اسے تقسیم کرنے اور اس کے ایک حصے کو مسیحیت کے نام پر الگ ملک بنانے کا آج سے پون صدی قبل منصوبہ بنایا گیا تھا جہاں مسیحیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بستی ہے مگر ان کی اس خطے میں اکثریت نہیں تھی۔ یہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے مسیحی مشنریوں نے اس علاقے میں آباد بت پرست قبائل کو مسیحی بنانے کا فیصلہ کیا اور مسیحی مشنریوں اور پادریوں نے کم و بیش نصف صدی کی مسلسل اور سخت محنت کے ساتھ ان بت پرست قبائل کو مسیحیت کے دائرے میں شامل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی اور اس طرح اس خطے میں مسیحی آبادی اکثریت میں تبدیل ہو گئی جس کے بعد وہاں اقوام متحدہ کو درمیان میں لا کر ریفرنڈم کرایا گیا اور سوڈان کو تقسیم کر کے ایک الگ مسیحی ریاست قائم کر دی گئی۔ اس سے قبل انڈونیشیا میں بھی یہی عمل ہوا ہے اور مشرقی تیمور کے نام سے ایک الگ مسیحی ریاست قائم ہو چکی ہے۔یہ ساری محنت مشنریوں اور پادریوں کی ہے، اس لیے میں علماء کرام سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں بھی سوچنا چاہیے اور اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے کہ کیا اس طرح کی کوئی محنت ہمارے دینی حلقوں اور علماء کرام کے طبقے میں بھی پائی جاتی ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو ہمیں اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری اور اس کے بارے میں مسئولیت کے پہلو پر ضرور سوچنا چاہیے۔

(٢) دوسری گزارش یہ ہے کہ دعوت و تبلیغ کا دوسرا دائرہ امت مسلمہ کی اصلاح اور مسلمانوں کو دین کے ماحول کی طرف واپس لانے کا ہے۔ عام مسلمان کا دین کے ساتھ تعلق قائم ہو، مسجد کے ساتھ اس کی وابستگی ہو اور مسجد کی آبادی اور معاشرتی کردار ماضی کی طرح ہمارے اجتماعی ماحول کا حصہ بنے، یہ بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے کہ عام مسلمان کا جب تک دین کے ساتھ عملی تعلق قائم نہیں ہوگا اور مسجد کی رونق اور آبادی کے ساتھ ساتھ اس کا حقیقی معاشرتی کردار بحال نہیں ہوگا اس وقت تک امت مسلمہ، مسلم ممالک اور ان کی سوسائیٹیوں کو موجودہ بحران سے نجات نہیں ملے گی۔ یہ صرف ہمارے ایمان اور جذبات کی بات نہیں ہے بلکہ دور زوال کے تلخ تجربات و مشاہدات بھی اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص زبان سے تو کہہ رہا ہے کہ دین کی طرف واپسی کے بغیر مسلمانوں کی مشکلات دور نہیں ہوں گی اور ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے لیکن اسی سوچ کو دائرہ عمل میں لانے کے لیے عملی طور پر ہم کیا کر رہے ہیں؟

تبلیغی جماعت کے دعوت و تبلیغ کے اس عمل کو میں امتِ مسلمہ کی اصلاح، عام مسلمانوں کو دین کی طرف واپس لانے اور مسجد کی رونق و کردار کو بحال کرنے کی جدوجہد سے تعبیر کرتا ہوں، جو بہرحال اپنے دائرے میں دنیا بھر میں مسلسل آگے بڑھ رہی ہے اور اس کے اثرات و ثمرات بھی پوری دنیا میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ میری نظر میں تبلیغی جماعت کا بنیادی دائرہ کار یہی ہے کہ وہ ایک عام مسلمان کو، جس کا مسجد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، گھیرگھار کر مسجد میں لے آتی ہے۔ وہ عام مسلمان جو ”مولوی” کے بارے میں اکثر بدگمانیوں کا شکار رہتا ہے اسے بہلا پھسلا کر مولوی کے پیچھے نماز کے لیے کھڑا کر دیتی ہے۔ اور وہ عام مسلمان جو دین کے بنیادی عقائد اور اعمال سے واقفیت نہیں رکھتا اسے سہ روزہ، چلہ اور سال لگوا کر کلمہ، نماز، حلال و حرام، اخلاقیات اور دیگر ضروریاتِ دین کی کچھ نہ کچھ تعلیم دے دیتی ہے۔ اس سے زیادہ میں تبلیغی جماعت سے اور کسی کام کا تقاضہ نہیں رکھتا اور نہ ہی دین کے کسی اور شعبے کا کام نہ کرنے پر تبلیغی دوستوں سے مجھے کوئی شکوہ ہے۔

اس سے اگلا کام ہمارا یعنی علماء کرام کا ہے لیکن یہ کام ہم تبلیغی جماعت کے ساتھ فاصلہ قائم رکھ کر نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے ہمیں تبلیغی جماعت کی صفوں میں شامل ہونا ہوگا اور باہمی محبت و تعاون کے ساتھ اگلے اصلاحی و تعلیمی مراحل کی صورت گری کرنا ہوگی۔ میری علماء کرام سے ہمیشہ گزارش ہوتی ہے کہ وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ تعلق قائم رکھیں، کچھ نہ کچھ وقت دیا کریں، میں خود سال میں ایک سہ روزہ پابندی کے ساتھ صرف اس غرض سے لگایا کرتا ہوں کہ اس سے تبلیغی جماعت کے ساتھ تعلق قائم رہتا ہے، اس کی سرگرمیوں سے آگاہی رہتی ہے اور دینی کاموں میں باہمی تعاون کے راستے کھلتے ہیں۔ فارغ التحصیل ہونے والے علماء کرام کو میں تلقین کیا کرتا ہوں کہ وہ فراغت کے بعد تبلیغی جماعت کے ساتھ سال لگائیں اور یا کسی کامل شیخ کے ساتھ روحانی و اصلاحی تربیت کا عملی تعلق قائم کریں۔ اس کے بغیر وہ اس علم کی خدمت اور قدر نہیں کر سکیں گے جو انہوں نے آٹھ دس سال میں محنت کر کے حاصل کیا ہے۔ تبلیغی جماعت کے مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے فضلائے درسِ نظامی کو ایک سال لگانا ہوتا ہے۔ میں اسے ان کا ”ہاؤس جاب” کہا کرتا ہوں، جس طرح ڈاکٹر صاحبان تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد خالصتاً ہسپتال کے ماحول میں ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں ایک سال ہاؤس جاب کرتے ہیں اور پڑھے ہوئے علم کو عمل کے دائرے میں لانے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح فارغ التحصیل علماء کرام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ تعلیمی اور اصلاحی ماحول میں کم از کم ایک سال تجربہ کار حضرات کی راہنمائی میں گزاریں۔ اور وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ سال لگانے کی صورت میں ہو تو بھی ٹھیک ہے اور اگر کسی کامل شیخ اور تجربہ کار استاذ کی نگرانی میں ہو تو بھی بات بن جائے گی۔ (جاری ہے)

قسط :2
(٣) علماء کرام سے تیسری گزارش میں یہ کرنا چاہوں گا کہ ہمیں اپنے تعلیمی کام کے اہداف اور دائرے پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔ فقہاء کرام نے دینی تعلیم کے دو درجے قائم کیے ہیں۔ ایک فرض عین اور دوسرا فرض کفایہ۔ معاشرے کو علماء کرام، حفاظ، قرائ، مفتیان، ائمہ، خطباء اور مدرسین فراہم کرنا فرضِ کفایہ کے دائرے کی چیز ہے جسے ہمارے دینی مدارس انتہائی احسن طریقے سے پورا کر رہے ہیں۔ بلکہ ایک مقتدر شخصیت نے کچھ عرصہ قبل کہا کہ ہم مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور دینی مدارس اس میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے، تو میں نے ایک مضمون میں لکھا کہ محترم! اس کا شکوہ ہم سے نہ کیجئے بلکہ یونیورسٹیوں اور کالجوں سے کیجئے، اس لیے کہ ہم نے کبھی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اسے انتہائی ضروری سمجھتے ہیں لیکن ہم نے سوسائٹی کو ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، وکیل، ٹیکنوکریٹ اور بیوروکریٹ فراہم کرنے کی ذمہ داری کبھی اپنے سر نہیں لی، یہ ذمہ داری جن اداروں نے سنبھالی اور اس کے لیے انہیں بھاری بجٹ ملتے رہے، اس کے بارے میں ان سے دریافت کیجئے۔

ہم نے یعنی دینی مدارس نے صرف یہ ذمہ داری اٹھائی تھی کہ سوسائٹی میں مسجد اور مدرسہ کا نظام قائم رہے گا اور ہم اس کے لیے رجال کار فراہم کرتے رہیں گے۔ چنانچہ سوسائٹی کو مولوی، امام، خطیب، قاری، حافظ، مدرس، مفتی اور مؤذن یہی مدارس فراہم کر رہے ہیں، اس میں اگر کسی جگہ کوتاہی ہے تو ہم سے پوچھیے اس کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔ اگر کسی جگہ مسجد بنی ہے اور خطیب و امام نہیں مل رہے، مدرسہ بنا ہے اور مدرس نہیں مل رہے، حافظ و قاری کی ضرورت ہے اور وہ میسر نہیں آرہے، دارالافتاء قائم ہوا اور مفتی نہیں مہیا ہو رہے تو اس کا شکوہ ہم سے کیجئے اور اس کا مورد الزام ہمیں ٹھہرائیے۔ اس حوالے سے تو ہم بحمد اللہ تعالٰی نہ صرف یہ کہ خودکفیل ہیں بلکہ بڑے ایکسپورٹر بھی ہیں کہ دنیا کے کسی حصے میں حافظ و قاری اور مدرس و مفتی کی ضرورت ہو ہم مہیا کرتے ہیں اور دنیا کے کم و بیش ہر علاقے میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے دینی مدارس کے پڑھے ہوئے افراد آپ کو دینی تعلیم کی خدمت سرانجام دیتے ہوئے ملیں گے۔ اس لیے اس حوالے سے تو بحمد اللہ تعالٰی دینی مدارس کا کردار بہت شاندار اور قابل فخر ہے لیکن میں اس کے دوسرے پہلو کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں۔

دینی تعلیم کا جو فرضِ عین کا درجہ ہے کہ ہر مسلمان ضروریاتِ دین سے واقف ہو اور اسے عقیدہ، عبادات، فرائض، معاملات، اخلاقیات اور حلال و حرام کی وہ ضروری تعلیم فراہم کی جائے جو اس کے لیے ہر صورت میں ضروری ہے، اس کے لیے ہمارا کردار کیا ہے اور ہم اس سلسلہ میں کیا کر رہے ہیں؟ ظاہر بات ہے کہ یہ ذمہ داری بھی علماء کرام ہی کی بنتی ہے کہ وہ عام مسلمانوں کے لیے ضروریات دین کی اس تعلیم کا، جو فرض عین کا درجہ رکھتی ہے، اہتمام کریں اور اس کا بھی اسی طرح کا کوئی مربوط نظم قائم کریں جیسا کہ ”فرض کفایہ” کے دائرے کی تعلیم کے لیے قائم و موجود ہے۔ ہم نے دراصل اس بات کو کافی سمجھ رکھا ہے کہ جو لوگ مسجد میں ہمارے پاس آجاتے ہیں، جمعہ پڑھ لیتے ہیں، درس سن لیتے ہیں، مسئلہ پوچھ لیتے ہیں یا کسی دینی پروگرام میں شرکت کر لیتے ہیں، ان تک دینی بات اور تعلیم پہنچا کر ہم اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ بات کافی نہیں ہے، وہ لوگ جو کسی بھی حوالے سے مسجد میں آجاتے ہیں، وہ ان لوگوں سے بہت کم ہیں جو مسجد میں کسی حوالے سے بھی نہیں آتے اور جن کا ہمارے ساتھ سرے سے کوئی جوڑ نہیں ہے۔ ان لوگوں کو اپنے دائرے سے باہر سمجھتے ہوئے ہم نے اپنی تمام تر سرگرمیوں کو مسجد میں خود آجانے والوں تک محدود کر رکھا ہے جو درست طرز عمل نہیں ہے اور میں اس کے بارے میں ایک حدیث نبوی کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ ”الوحدان” میں ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تذکرہ کیا ہے جن سے صرف ایک روایت منقول ہے۔ ان میں حضرت ابزٰی خزرعیرحمہ اللہ کا یہ واقعہ مذکور ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو اپنے پڑوسیوں سے دین کی سمجھ حاصل نہیں کرتے، علم نہیں سیکھتے اور دین کا فہم حاصل نہیں کرتے۔ اور ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو اپنے پڑوسیوں کو دین کی تعلیم نہیں دیتے، مسائل و احکام نہیں سمجھاتے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرتے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دونوں طبقے اپنا رویہ درست کر لیں ورنہ میں اس دنیا میں انہیں سزا دوں گا۔ اس جملے سے بعض فقہاء کرام نے یہ استدلال کیا ہے کہ حکومت کو جبری تعلیم کا حق حاصل ہے۔ آنحضرت کا یہ ارشاد سن کر مدینہ منورہ کے عوامی حلقوں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ حضورۖ نے یہ بات عمومی طور پر کی ہے یا کسی خاص گروہ کو اس کا ہدف بنایا ہے۔ چنانچہ لوگوں نے محسوس کیا کہ اشعریوں کے محلے میں یہ کیفیت دکھائی دیتی ہے کہ حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ اور ان کا خاندان اپنا ایک الگ محلہ بسا کر اس میں قیام پذیر ہے جبکہ ان کے اردگرد کاشتکاروں اور باغبانوں کی آبادی ہے جن کا تعلیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اشعریوں کا خاندان قراء اور فقہاء کا خاندان کہلاتا تھا جبکہ اردگرد کے عام لوگ دینی تعلیمات سے بے خبر تھے اور ان کا آپس میں تعلیم و تعلم کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ بات مدینہ منورہ میں عام ہونے لگی کہ جناب رسول اکرمۖ نے یہ بات اشعریوں کے بارے میں فرمائی ہے۔ یہ بات اشعریوں تک پہنچی تو انہیں تشویش ہوئی اور ان کا ایک وفد تصدیق کے لیے آنحضرتۖ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپۖ نے ان کی بات سن کر نہ صرف اس عوامی تاثر کی تصدیق فرمائی بلکہ اشعریوں کے وفد کے سامنے وہ جمعہ والی بات ایک بار پھر دہرا دی۔ اس پر اشعریوں نے پوچھا ”انعاقب بتقصیر غیرنا؟” کیا دوسروں کے قصور پر ہمارا مواخذہ کیا جائے گا؟ جناب نبی اکرمۖ نے اس پر ”نعم” ہاں فرما کر اس کی توثیق کر دی۔ جس سے فقہاء کرام نے یہ اصول اخذ کیا کہ پڑھنا اور پڑھانا مشترک ذمہ داری ہے، جس طرح اَن پڑھ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پڑھے لکھے لوگوں کو تلاش کر کے ان سے تعلیم حاصل کریں، اسی طرح پڑھے لکھے لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اَن پڑھوں سے رابطہ کر کے انہیں دینی تعلیم سے آراستہ کریں اور علمِ دین کو عام کرنے میں کردار ادا کریں۔ اس پر اشعریوں نے عرض کیا کہ ”فامھلنا سنة” جس پر آنحضرتۖ نے انہیں ایک سال کی مہلت دی اور اشعریوں نے پورا سال لگا کر اس کوتاہی کی تلافی کر دی۔ (جاری ہے)