حالات سنجیدہ طرز سیاست کے متقاضی ہیں

سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نے خیبر پختونخوا میں سیاسی تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبہ کسی کشمکش کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ تبدیلی پی ٹی آئی کے اندرسے آنی چاہیے، کوئی بھی فیصلہ پارٹی مشاورت سے کریں گے۔ ادھر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا ہے کہ آج سے فیصلہ سازوں کو 90 دن کا وقت دے رہے ہیں، اس کے بعد یا تو ہم سیاست چھوڑ دیں گے یا پھر 91ویں دن تم نہیں ہوگے۔ لاہور میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی پارلیمانی کمیٹیوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے کہا کہ سن لو فیصلہ کرنے والو ہم آپ کو نوے دن کا وقت دے رہے ہیں، سدھر جاؤ۔

ایک مختصر وقفے کے بعد ملک ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام کی دہلیز پر کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی فضا میں بے یقینی اور تنازعات کی گرد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ خیبرپختونخوا انتشار، بدامنی اور سیاسی محاذ آرائی کا مرکز بن چکا ہے۔ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق حالیہ فیصلے کے بعد کشیدگی میں بظاہر اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کی مخالفت کی، جس کے بعد نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھی پارٹی پوزیشن میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی۔اس تبدیلی نے صوبے میں افواہوں، قیاس آرائیوں اور سیاسی کشمکش کو جنم دیا۔ یہ تاثر زور پکڑ گیا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت کو ختم کیا جا رہا ہے اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جگہ کسی اور کو لایا جائے گا۔ پی ٹی آئی اپنے قائد عمران خان کی رہائی کیلئے تقریباً دو سال سے بر سر احتجاج ہے۔ اس احتجاج کے دوران جو کچھ سامنے آتا رہا ہے، وہ نو مئی کے سیاہ دن جیسے انتشار اور فساد سے ہی عبارت ہے۔ احتجاج ہر سیاسی جماعت اور کارکن کا حق ہے، مگر اس جماعت نے انتشار، فساد، ملک اور اس کے اداروں سے دشمنی نکالنے کو ہی احتجاج کا وسیلہ بنا لیا ہے، کوئی بھی موقع ہو، اس جماعت کے اچھے خاصے معقول سمجھے جانے والے رہنما بھی ملک اور اداروں کیخلاف زہر اگلنے سے باز نہیں رہتے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں مسلسل عدم استحکام کی فضا ہے اور پی ٹی آئی کے اس ناپختہ اور غیر معقول رویے نے باشعور لوگوں کو اس سے فاصلہ رکھنے پر مجبور کردیا ہے۔

پی ٹی آئی جو پہلے ہی احتجاج اور انتشار پر خار کھائے ہوئے ہے، عدالتی فیصلے اور اس کے اثرات سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر ملک اور حکومت کیخلاف انتشار کو ہوا دیتے نظر آتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ ایک باوقار منصب ہے۔ کوئی بھی پارٹی اس منصب اور عہدے کیلئے قابل، معاملہ فہم اور سنجیدہ و ذمے دار فرد کا انتخاب کرتی ہے تاکہ وہ اپنی کارکردگی سے عوام کی مشکلات کم کرے، مسائل حل کرے، صوبے کو ترقی دے اور پارٹی کیلئے بھی نیک نامی کمائے۔ کے پی کے کی وزارت اعلیٰ کیلئے بھی یقینا یہی معیار سامنے رکھ کر پارٹی نے جناب علی امین گنڈاپور کا انتخاب کیا ہوگا، مگر جب سے انہوں نے منصب سنبھالا ہے، اب تک کی ان کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی ترجیحات وفاق کیخلاف احتجاج اور پارٹی کے سیاسی نعروں کو آگے بڑھانے تک ہی محدود دکھائی دیتی ہیں اور صوبے کے عوام حالات کے رحم و کرم پر نظر آتے ہیں، جیسے صوبائی حکومت کا صوبے کے مسائل اور معاملات سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عوام حادثوں کا شکار ہوکر مرتے ہیں اور انہیں کوئی بچانے والا نہیں ہوتا، صوبے میں بد انتظامی اور کرپشن عروج پر ہے، ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں،صحت، صفائی، تعلیم، سیاحت کسی شعبے میں بھی فعالیت نظر نہیں آتی، دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور وہ صوبے کے کسی بھی شہر میں جب چاہتے ہیں آسانی سے دھاوا بول دیتے ہیں اور صوبائی مشینری سوتی رہ جاتی ہے۔ ایسے میں لوگ یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا حکومت کے ذمے صوبے کے مسائل کا حل اور انتظامی امور کی دیکھ بھال ہے یا محض سیاسی جلسے اور پارٹی مفادات کی سیاست ہے؟

ایک ایسے موقع پر جب صوبہ طرح طرح کی مشکلات سے دوچار ہے، اصل مسائل پر توجہ دینے کی بجائے صوبے کا حاکم سیاسی جلسوں میں شرکت کیلئے دوسرے صوبے کا رخ کر رہا ہے، جو کسی بھی طرح وزیر اعلیٰ کے مقام و منصب کے شایان شان نہیں ہے۔ صوبائی حکومت کو پارٹی سیاست اور حکومتی ذمے داریوں میں فرق ملحوظ رکھنا چاہیے اور سیاسی معاملات اور مفادات کو پارٹی کے ہی حوالے کرنا چاہیے، ورنہ اس سے صوبے میں افراتفری جنم لے گی اور ملک و قوم کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔یہ وقت سیاسی تدبر، بصیرت اور حکمت سے کام لینے کا ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات سیاست کے تمام فریقوں سے صبر و تحمل، سنجیدگی، متانت، وقار اور ذمے دارانہ طرز عمل کا تقاضا کرتے ہیں۔ مسائل کا حل للکار و یلغار میں نہیں ہے۔ پی ٹی آئی بجائے خود اس کا تجربہ کر چکی ہے، مگر بد قسمتی سے اس سے سیکھنے پر آمادہ نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ مطالبہ بجا ہے کہ صوبے میں کوئی بھی سیاسی اور آئینی تبدیلی صوبے کی حکمران جماعت کے اندر سے ہی آنی چاہیے، ورنہ بجائے بہتری کے حالات مزید ابتری کی طرف جاسکتے ہیں، جس کا ملک متحمل نہیں ہے۔

شنگھائی اور برکس کے بعدآسیان میں بھارتی شکست

آسیان ریجنل فورم (ARF) کے حالیہ اجلاس میں بھارت کو ایک بار پھر سفارتی محاذ پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، جب اس کے پاکستان مخالف الزامات کو دوٹوک انداز میں مسترد کر دیا گیا۔ پاکستانی ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ عمران احمد صدیقی نے اپنے مدلل خطاب میں بھارتی موقف کو آدھے سچ اور ”فلمی مظلومیت” پر مبنی قرار دیتے ہوئے اسے بے نقاب کیا۔ بھارت کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کی پشت پناہی کا الزام دہرانا نہ صرف گھسا پٹا پرانا بیانیہ ہے بلکہ حقیقت کے بالکل برعکس بھی ہے۔ عمران صدیقی نے کلبھوشن یادیو کی مثال دے کر واضح کیا کہ دہشت گردی کا اصل سرپرست بھارت ہے، جس کا حاضر سروس نیوی افسر پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے گرفتار ہوا۔ ایسے شواہد کے ہوتے بھارت کا پاکستان پر انگلی اٹھانا سفارتی خودفریبی ہے۔ مزید برآں بھارت کی طرف سے انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل کرنے کی دھمکی ایک سنگین بین الاقوامی خلاف ورزی ہے، جو خطے کے امن کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ عمران صدیقی نے بالکل بجا کہا کہ پاکستان اپنی خودمختاری کا دفاع کرنا خوب جانتا ہے اور کسی بھی دباؤ یا جارحیت کا مؤثر جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔