صحابہ کرام کے طبعی ذوق اور میلان

تیسری قسط:
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ جب حضورۖدودھ کا پیالہ لے کر باہر تشریف لائے تو میری جان میں جان آ گئی کہ میرا آج گزارا ہو جائے گا کیونکہ پیالا بڑا تھا۔ دودھ کا پیالہ دیکھ کر میں خوش ہو گیا، لیکن جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفہ والوں کو بلا لاؤ۔ یہ سن کر میری وہ بات بھی گئی۔ صفہ میں چالیس پچاس اور کبھی ستر تک آدمی ہوتے تھے۔ مجھے یہ خیال آیا کہ صفہ والے آئیں گے تو مجھے اس دودھ میں سے کیا ملے گا۔ بہرحال حضور نبی کریمۖ کا حکم تھا، میں صفہ والوں کو بلا لایا۔ آپۖ نے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ وہ تمام بیٹھ گئے۔ مجھے حضورۖ نے فرمایا کہ ان کو پلاؤ۔ میں نے کانپتے کانپتے ہاتھوں سے ان کو باری باری پلانا شروع کیا۔ جب وہ پی رہے تھے تو مجھے کچھ اطمینان ہو رہا تھا کیونکہ پیالا ویسے کا ویسا ہی بھرا ہوا تھا۔

جب وہ سب پی چکے تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا ابو ہریرہ! تم پیو۔ میں نے پیا۔ آپ ۖنے فرمایا پھر پیو۔ میں نے پھر پیا۔ آپۖ نے فرمایا پھر پیو۔ میں نے پھر پیا۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے اتنا دودھ پیا اتنا پیا کہ مجھے آج بھی دودھ حلق میں اچھلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے بعد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی دودھ نوش فرمایا۔حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کیفیت میں بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس نہیں چھوڑی اور اپنا ذوق نہیں چھوڑا، میرا ایک ہی کام تھا، حدیثیں سننا، یاد رکھنا اور آگے لوگوں کو سنانا۔ یہ ذوق کی بات ہوتی ہے۔ اور ذوق کبھی بہت آگے بڑھ جاتا ہے۔

ہمارے ہاں جو جمعہ کا خطبہ ہوتا ہے اس سے پہلے علماء کرام تقریر کرتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صرف خطبہ ہوتا تھا۔ خطبہ سے پہلے تقریر حضرت ابوہریرہ کی سنت ہے۔ حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں ایک دن حضرت ابو ہریرہ نے حضرت عثمان سے کہا اے امیر المومنین! جمعہ کے دن لوگ جلدی آ جاتے ہیں اور آپ اپنے وقت پر آتے ہیں۔ لوگ فارغ بیٹھے رہتے ہیں، اجازت ہو تو کچھ حدیثیں سنا دیا کروں۔ حضرت عثمان نے فرمایا، ہاں سنا دیا کرو۔ چنانچہ حضرت عثمان کے آنے سے پہلے کچھ دیر حضرت ابو ہریرہ حدیثیں بیان کیا کرتے تھے۔ یوں عہدِ عثمانی سے جمعہ کی پہلی تقریر حضرت ابوہریرہ کی سنت چلی آرہی ہے۔

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ نبوی میں تشریف لائے۔ ہم کچھ دوست بیٹھے ہوئے حدیثوں کا مذاکرہ کر رہے تھے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دیکھ کر خوش ہوئے اور فرمایا کہ آج تم میں سے جو آدمی اپنا دامن پھیلائے گا، میں کچھ پڑھوں گا، اور وہ اپنے سینے سے لگا لے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسی یادداشت دے گا کہ کبھی کوئی بات نہیں بھولے گا۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے فوراً چادر پھیلائی۔ حضورۖ نے کچھ دعا فرمائی اور میں نے چادر سینے سے لگا لی۔ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! اس چادر کی ٹھنڈک آج بھی سینے میں محسوس ہو رہی ہے، اور اس دن کے بعد سے آج تک ایسا نہیں ہوا کہ میں نے کوئی بات یاد کی ہو اور بھول گئی ہو۔

حضرت ابوہریرہ ایک اور موقع کا ذکر کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا ابوہریرہ! تمہارے لیے کیا دعا کروں؟ کیفیت یہ ہے کہ کھانے کو کچھ نہیں ہے، دو دو دن فاقہ سے گزرتے ہیں۔ لیکن عرض کیا یا رسول اللہ! ایک دعا کی درخواست ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری یادداشت کو اتنا مضبوط کر دیں کہ آپ سے سنی ہوئی کوئی بات زندگی بھر کبھی نہ بھولوں۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں حدیثیں سب سے زیادہ بیان کرتا ہوں تو اس کی ایک وجہ میری محنت اور ذوق ہے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میرے پیچھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے حضورۖ سے کوئی بات سنی ہو اور پھر کبھی میں وہ بات بھول گیا ہوں۔

امت میں حفاظِ حدیث ہر زمانے میں گزرے ہیں۔ محدثین کی ایک بڑی تعداد ہے جو دنیا میں ہر زمانے میں رہے ہیں۔ اگر ان کا شجرۂ نسب جوڑا جائے تو حضرت ابو ہریرہ کے ساتھ جا کر جڑے گا۔
ایک اور صحابی کے ذوق کا ذکر کرنا چاہوں گا، ان کا ذوق سب سے الگ تھا۔ حضرت حذیفہ بن الیمان کا منفرد ذوق ہے۔ بخاری شریف میں وہ اپنا ذوق یوں بیان کرتے ہیں کہ لوگ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی باتیں پوچھا کرتے تھے اور میں شر کی باتیں پوچھا کرتا تھا۔ ان کا ذوق تھا کہ پوچھتے یا رسول اللہ! خرابیاں کیسے پیدا ہوتی ہیں، ان کا علاج کیسے ہوتا ہے، فتنے کیسے کھڑے ہوں گے، جب فتنے آجائیں تو ہم نے کیا کرنا ہے؟ فرماتے ہیں میں شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا، اس ڈر سے کہ کہیں شر کا زمانہ مجھ پر آ جائے تو میں کیا کروں گا؟ اگر مجھے کسی فتنے کا سامنا کرنا پڑ جائے تو میں کیا کروں گا؟

بلکہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمر کی خلافت کا زمانہ ہے، لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، حضرت حذیفہ بن الیمان بھی تشریف فرما ہیں۔ حضرت عمر نے پوچھا کہ تم میں سے فتنوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ باتیں کس نے سنی ہیں کہ امت میں فتنے اور خرابیاں کیسے پیدا ہوں گی اور ان سے کیسے نمٹنا ہے؟
حضرت حذیفہ نے فرمایا: میں نے۔
حضرت عمر نے فرمایا: مجھے پہلے ہی پتہ تھا تم یہ کہو گے۔
حضرت عمر نے پوچھا کہ حضور نبی کریمۖ نے اس بارے میں کیا فرمایا تھا؟
حضرت حذیفہ نے کہا کہ حضورۖ نے فرمایا تھا کہ لوگوں میں خرابیاں پیدا ہوں گی، لیکن خرابیوں کے ساتھ ساتھ اصلاح بھی ہوتی رہے گی۔ آدمی گناہ کرے گا پھر نماز پڑھے گا تو نماز کی برکت سے گناہ معاف ہو جائے گا۔ کوئی شر کا کام کرے گا، اس کے بعد خیر کا کام کرے گا تو خیر کی برکت سے شر ختم ہو جائے گا۔ نیکیاں اور بدیاں چلتی رہیں گی۔ قرآن مجید کا قانون ہے ”ان الحسنات یذہبن السیئات” نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔

حضرت عمر نے فرمایا: میں آپ سے یہ نہیں پوچھ رہا، یہ تو ہوتا رہتا ہے کہ نماز، روزہ اور حج گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ میں ان فتنوں کے بارے میں پوچھ رہا ہوں جو امت میں سمندر کے طوفان کی طرح موج ماریں گے، یعنی اجتماعی فتنوں کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔حضرت حذیفہ نے جواب دیا کہ آپ کو کوئی ڈر نہیں ہے۔ کیونکہ آپ کے اور فتنوں کے درمیان ایک بڑا مضبوط دروازہ ہے اور دروازہ بھی مغلق ہے۔ یعنی صرف بند نہیں ہے بلکہ لاک ہے۔ اس لیے آپ پریشان نہ ہوں، آپ مت گھبرائیں۔

حضرت عمر ان کی بات سمجھ گئے۔ ان کی بات کا مطلب یہ تھا کہ آپ کے ہوتے ہوئے فتنے نہیں آئیں گے، آپ ان فتنوں کے لیے بڑی رکاوٹ ہیں۔ پھر حضرت عمر نے ان سے پوچھا: یہ بتاؤ کہ وہ دروازہ کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا؟ کوڈورڈ میں بات ہو رہی تھی۔ مطلب یہ کہ میری طبعی موت ہوگی یا شہادت ہو گی؟
حضرت حذیفہ نے کہا: وہ دروازہ توڑا جائے گا۔
اس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ اگر وہ دروازہ توڑ دیا گیا تو قیامت تک کبھی بند نہیں ہوگا۔

بعد میں کسی نے حضرت حذیفہ سے پوچھا کہ آپ آپس میں کیا باتیں کر رہے تھے، ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی؟ تو انہوں نے بتایا کہ میں نے حضرت عمر سے کہا تھا کہ آپ کے ہوتے ہوئے کوئی فتنہ نہیں آئے گا۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ میں طبعی موت مروں گا یا شہید ہوں گا تو میں نے کہا آپ شہید ہوں گے۔بہرحال حضرت حذیفہ اپنا ذوق بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا۔

یہ بھی دین کا ایک مستقل شعبہ ہے۔ یہ ذوق کیا ہے؟ سوسائٹی میں، امت میں خرابیوں کو محسوس کرنا، ان کی نشاندہی کرنا، اس کا علاج تجویز کرنا اور متعلقہ لوگوں کو توجہ دلانا۔ (جاری ہے)