مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات میں بتایا گیاہے کہ شمالی وزیرستان کے علاقے حسن خیل سے پاک افغان سرحد کے ذریعے بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں کی دراندازی کی ایک بڑی کوشش کوفورسز نے ناکام بنا دیاورنہ نجانے کتنے بے گناہ شہری ان دہشت گردوں کے انتقام کا نشانہ بن جاتے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق اس کارروائی میں تیس دہشت گرد ہلاک ہوئے اور ان کے قبضے سے بھاری مقدار میں خطرناک اسلحہ اور گولا بارود برآمد ہوا ہے۔ اس کامیاب آپریشن پر صدر مملکت، وزیراعظم اور وفاقی وزیر داخلہ نے فورسز کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح فورسز کی پشت پر کھڑی ہے اور جلد قوم کو اس ناسور سے نجات مل جائے گی۔
یہ کامیاب کارروائی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان پہلے ہی ایک پیچیدہ پراکسی جنگ کا سامنا کر رہا ہے جس کی پشت پناہی بیرونی عناصر کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ ایک طرف جہاں پاک افغان سرحد پر دراندازی کی مسلسل کوششیں جاری ہیں، وہیں دوسری طرف بلوچستان میں فتنہ ہندوستان (علیحدگی پسند تنظیموں) کی سرگرمیاں بھی ملکی سلامتی کیلئے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے بلوچستان کے نام پر ایک نیا محاذ کھول دیاہے۔ صرف ایک ماہ کے دوران بلوچستان کے نام پراکیس ہزار سے زائد ایسے اکاؤنٹس تخلیق ہوئے جو بھارت سے چلائے جارہے ہیں۔ یہ شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بھارت بلوچستان میں علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کے لیے منظم انداز میں کام کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے انٹرنیٹ کی دنیا کو بھی استعمال کر رہا ہے۔ بلوچستان میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کے حالیہ بھرپور آپریشنز، جن میں دکی سے مچھ اور مستونگ تک کی کارروائیاں شامل ہیں، نے علیحدگی پسندوں کی حکمت عملی کو بری طرح نقصان سے دوچار کیا ہے۔ عسکری شکستوں کے بعد اب علیحدگی پسندوں نے انہی بلوچوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے جن کے نام پر وہ آزادی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے میں بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں کئی بلوچوں کا قتل اس تنظیم کی ظالمانہ کارروائیوں کا ایک ثبوت ہے اور ان واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ محض ایک باغی گروہ ہے جو نسل کشی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
اس صورتحال میں یہ اہم سوال اٹھتا ہے کہ فتنہ خوارج کے مراکز کو افغانستان ہی میں نشانہ بنانے کی حکمت عملی شرعی و منطقی لحاظ سے درست ہوگی یا نہیں؟ یا یہ کہ صرف اپنی سرحدوں کو مستحکم کیا جائے اور جو بھی دراندازی کی کوشش کرے اسے بروقت اور موثر طریقے سے روکا جائے، جیسا کہ حالیہ کارروائیوں سے بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ پاکستان نے یہی طریقہ کار اختیار کر لیا ہے۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کی خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے اگر کوئی ملک اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہ بننے دیتا ہے جو پڑوسی ملک کے خلاف سرگرم ہیں، تو اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی قوانین کے تحت مختلف راستے موجود ہوتے ہیں، تاہم فی الحال پاکستان اپنی سرحدوں کو مزید مضبوط بنانے اور دراندازی کی کوششوں کو بروقت ناکام بنانے پر زیادہ توجہ دے رہا ہے۔ حالیہ کامیابیاں اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ اس موقع پر پاک افغان پرامن تعلقات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ روس کی جانب سے افغان عبوری حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنا خطے کی صورتحال میں ایک نئی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ یہ پیشرفت افغانستان کی عالمی سطح پر قبولیت کے نئے در کھول سکتی ہے، جس سے خطے میں استحکام پیدا ہونے کی امید ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے ساتھ سفارتی سطح پر اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کرے تاکہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جا سکیں۔
حقائق کی روشنی میں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بھارت صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کا بھی دشمن ہے۔ مودی حکومت اسلام دشمن اور مسلم کش پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور وہی پاکستان میں دہشت گردی کو پھیلا رہی ہے، جیسا کہ جلاوطن بلوچ قیادت کے متعلق انکشافات سے ظاہر ہوتا ہے۔ مودی حکومت بلوچستان میں مشرقی پاکستان جیسی صورتحال کو پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ محب وطن بلوچ تجزیہ کاروں کے مطابق بلوچستان میں مارکسسٹ نظریاتی وراثت، بیرونی پشت پناہی، طلبہ کی ذہن سازی اور دہشت گردی یہ سب عناصر مل کر ایک محدود مگر خطرناک شورش کو جنم دیتے ہیں۔ گوادر سے ژوب تک سڑکیں، توانائی منصوبے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود حملوں کا سلسلہ نہ رکنے کی وجہ یہ ہے کہ تین سے چار ہزار کے قریب سرگرم دہشت گردوں کا ہدف معاشی اصلاح نہیں بلکہ علیحدگی ہے اور وہ ہر طرح کے ترقیاتی اقدامات کو ”نو آبادیاتی” منصوبہ کہہ کر رد کرتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق یہ گروہ ریاستِ پاکستان کی جغرافیائی سلامتی پر فیصلہ کن اثر نہیں ڈال سکتے، البتہ محدود کارروائیوں، نرم اہداف اور پروپیگنڈا کے ذریعے یہ مسلسل بدامنی ضرور پیدا کر سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کی سرگرمیاں اور ان کے مقامی سیاستدانوں اور جاگیرداروں کی حمایت کے خدشات بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ڈاکو دراصل فتنہ ہندوستان ہی کے اتحادی ہو سکتے ہیں اور ان کیخلاف بھی کارروائی ضروری ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آئندہ دو سے تین ماہ میں ایک اور جنگ ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو درپیش ان تمام چیلنجوںسے نمٹنے کیلئے قومی یکجہتی، مضبوط دفاع اور موثر سفارت کاری کی اشد ضرورت ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جاری یہ جنگ ایک کثیر جہتی نوعیت کی ہے جس کے لیے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر مکمل تیاری اور ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ پاکستان اپنے غیر متزلزل عزم کے ساتھ تمام داخلی و خارجی خطرات سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے اور اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہا ہے تاہم اشرافیہ کی عیاشیاں اور مہنگائی قومی قیادت کے لیے ایک سنگین مسئلہ پیدا کرسکتے ہیں۔ ان دونوں مسائل کا تدارک ملکی دفاع کے لیے اہمیت اختیار کرچکا ہے۔