روبن ولیم مشہور امریکی اداکار تھا، 21جولائی 1951ء کو شکاگو میں پیدا ہوا، یونیورسٹی میں سیاست پڑھی اور عملی زندگی کا آغاز اداکاری اور اسٹینڈ اپ کامیڈی سے کیا۔ روبن ولیمز کی اداکاری محض اداکاری نہیں تھی بلکہ جذبات کی ایسی لہریں تھیں جو دیکھنے والوں کے دلوں میں اتر جاتی تھیں۔ ”مسز ڈاؤٹ فائر” میں ایک باپ کی بے بسی، ”گوڈ ول ہنٹنگ” میں ایک معالج کی ہمدردی اور ”ڈید پوئٹس سوسائٹی” میں ایک استاد کا جذبہ، اس کا ہر کردار لازوال تھا۔ اس کی کامیڈی قہقہوں کی برسات ہوتی تھی اور اسے دیکھنے والے اپنے دکھ درد بھول جاتے تھے۔ لیکن ٹھہریے! کیا آپ جانتے ہیں کہ روبن ولیم کی مسکراہٹ کے پیچھے دکھ، تنہائی اور ذہنی اذیت کا کتنا بڑا سمندر موجزن تھا؟ جی ہاں اگست 2014میں جب اس نے خودکشی کی تو دنیا کو علم ہوا وہ اندر سے کتنا کھوکھلا، دکھی اور تنہائی کا مارا ہوا تھا۔
چارلی چپلن دنیا کا سب سے مشہور کامیڈی ادکار تھا، کسی نے اس سے پوچھا تم بارش میں کیوں واک کرتے ہو؟ اس کا جواب حیران کن اور وحشت ناک تھا، اس کا کہنا تھا کہ میں بارش میں اس لیے واک کرتا ہوں تاکہ بارش میں روتے ہوئے میرے آنسو کسی کو معلوم نہ ہو سکیں۔ شوبز انڈسٹری کی چکا چوند، رنگ برنگی روشنیاں، جگمگاتے چہرے اور قہقہوں کی گونج دراصل ایک ایسا جال ہے جو انسان کو بظاہر چمکتا دکھائی دیتا ہے مگر اندر سے کھوکھلا، مصنوعی اور مفاد پرستی کی سڑاند سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ آپ اسکرین پر جو دیکھتے ہیں وہ سب سراب، دھوکہ اور مفادات کا کھیل ہوتا ہے۔ اس انڈسٹری میں ہر مسکراہٹ کے پیچھے ایک سودا ہوتا ہے، ہر تعریف کے پیچھے ایک مفاد ہوتا ہے، ہر چمک کے پیچھے سسکیاں اور خوف و ہراس زدہ راتیں ہوتی ہیں۔ یہ وہ سچ ہے جو شوبز کی اس مصنوعی دنیا میں کوئی زبان پر نہیں لاتا کیونکہ یہاں اصل نہیں بس دکھاوا بکتا ہے۔
چھ ماہ قبل تک حمیرا اصغر بھی شوبز کی چمک دمک کا حصہ تھی، بتایا جارہا ہے کہ اس کی محفلیں روشن تھیں، اسکرین پر اس کا تبسم، اندازِ گفتگو اور کرداروں میں ڈھلنے کی مہارت دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتی تھی۔ مگر اسی حمیرا اصغر کی جب چھ ماہ پرانی اور متعفن زدہ لاش اس کے فلیٹ سے برآمد ہوئی تو اس کی گلیمر زدہ اداکاری، انسٹا کی تصویریں اور ان کے پیچھے چھپا ہوا سچ ایک لمحے کے لیے سب کے سامنے عیاں ہوگیا۔ حمیرا اصغر کی موت محض ایک فرد کی موت نہیں بلکہ پوری شوبز انڈسٹری کا المیہ ہے جو اپنی مصنوعی چمک سے نسل نو اور خصوصاً نوجوان لڑکیوں کو عزت، شہرت، دولت اور مشہوری کاخواب دکھاتی ہے مگر اس کا انجام تنہائی، ذہنی اذیت اور خاموش موت پر منتج ہوتا ہے۔ تقریباً ایک ماہ قبل مشہور اداکارہ عائشہ خان بھی اسی تنہائی کا شکار ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوگئیں تھی۔ ان کی وفات کی خبر بھی ایک ہفتہ بعد ہوئی ان کے پڑوسیوں کے ذریعے ہوئی تھی۔
شوبز کی دنیا بظاہر پرکشش نظر آتی ہے۔ شہرت، دولت، ستائش اور اسکرین پر ”نظر” آتے رہنے کا خواب نجانے کتنے نوجوانوں کا مقصد زندگی بن چکا ہے۔ خاص طور پر لڑکیاں یہ سمجھ بیٹھی ہیں کہ خوبصورتی اور مقبولیت انہیں ایک ایسی طاقت بخش دے گی جس سے وہ ہر دکھ اور ہر محرومی کو دور کر دیں گے۔ افسوس مگر یہ ہے کہ وہ شوبز انڈسٹری کے اندرونی حالات سے بے خبر ہوتی ہیں۔ وہ نہیں جانتی کہ اس انڈسٹری میں مسلسل ہر اسانی، ذہنی دباؤ، مسابقت کی دوڑ اور مستقل طور پر خوبصورت نظر آنے کی فکر حمیرا اصغر جیسی لڑکیوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اس کھوکھلے پن کے ساتھ فلیٹوں کی تنہائی ان کی آخری پناہ گاہ بن جاتی ہے جہاں سے پھر ان کی لاش ہی برآمد ہوتی ہے۔ شوبز انڈسٹری ایسی مفادات کی دنیا ہے کہ اگر اس میں کسی کے پاس مضبوط خاندانی سہارا، دین کی رہنمائی اور باطنی سکون نہ ہو تو یہ دنیا آخر میں خوفناک تنہائی پر جا کر ختم ہوتی اور تنہائی موت کا پیغام بن جاتی ہے۔
تنہائی دور جدید کے انسان کا سب سے بڑا المیہ بن چکا ہے۔ آ ج ہر انسان سوشل میڈیا کا اسیر ہے اور تنہائی چاہتا ہے۔ تنہائی کی دوسری وجہ خاندان کے ادارے کی شکست و ریخت ہے۔ مغرب میں خاندانی دارہ دہائیوں پہلے ختم ہو چکا تھا مگر اب مشرق بھی اسی راستے پر گامزن ہے۔ خاندان نہ ہونے کا لازمی نتیجہ تنہائی کی صورت میں نکلتا ہے اور تنہائی عائشہ خان اور حمیرا اصغر کی موت کی صورت میں منتج ہوتی ہے۔ تنہائی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” اگر لوگوں کو تنہا رہنے کے بارے میں وہ معلوم ہو جائے جو میں جانتا ہوں تو کوئی شخص رات کو اکیلے سفر نہ کرے اور نہ کوئی آدمی اکیلا گھر میں سوئے۔” اس حدیث کو جب ہم حمیرا اصغر اور عائشہ خان کی موت کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو اس کی معنویت اور واضح ہو جاتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تنہا رات بسر کرنے سے اسی لیے منع فرمایا کہ تنہائی انسان کے ذہن اور دل دونوں کو کمزور کر دیتی ہے۔ تنہا رہنے والا انسان اپنے وسوسوں کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی روحانی اور نفسیاتی طاقت گھٹنے لگتی ہے۔ حمیرا اصغر اور عائشہ خان کی کئی ماہ اور کئی ہفتے پرانی لاشوں کا ملنا یاد دلاتا ہے کہ انسان کے گرد رشتے ناتوں کا ہونا محض دنیاوی ضرورت نہیں بلکہ دل و دماغ کی بقا کے لیے لازم ہے۔ یہ دونوں اموات ہمیں بتاتی ہیں کہ شہرت اور دولت وقتی سہارا ہیں۔ اگر ان کے ساتھ رشتے ناطے اور انسانی تعلقات نہ جڑے ہوں تو یہ انسان کو تنہائی کی طرف دھکیل دیتی ہیں اور تنہائی ایسی آگ ہے جو اندر ہی اندر انسان کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ اگر ہم مذکورہ حدیث کی معنویت کو سمجھ لیں تو معاشرے سے نہ صرف تنہائی کے عذاب کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ بہت سی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
حمیرا اصغر اور عائشہ خان کی موت محض ایک المیہ نہیں بلکہ نسل نو کے لیے عبرت و نصیحت ہیں کہ شوبز کی زندگی بظاہر جتنی خوبصورت ہے اس کا اندرون اتنا ہی تاریک اور وحشت ناک ہے۔ اس انڈسٹری کی انتہاء تنہائی کا وہ فلیٹ ہے جہاں مرتے وقت بھی انسان تنہا ہوتا ہے۔ جہاں کوئی اس کا سر گود میں رکھ کر اسے سہارا نہیں دے سکتا اور اس انڈسٹری کی انتہا ایسی خاموش موت ہے جس کا علم کئی ہفتوں اور مہینوں بعد ہوتا ہے۔