آج یوم عاشور ہے۔یہ ان ایام میں سے ہے جن کی شرعی حیثیت اور فضیلت پر پوری امت کا اتفاق ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس دن کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے احکام بیان کیے گئے ہیں جن میں روزہ رکھنا بھی شامل ہے۔ ایک حدیث کے مطابق یوم عاشور وہ دن ہے جس دن بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات ملی تھی اور حضرت موسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوٰة والسلام معجزاتی طور پراپنی قوم کو لے کر بحر قلزم عبور کر گئے تھے۔ بعض روایات کے مطابق دنیا میں دیگر کئی بڑے انقلابات بھی اسی دن پیش آئے تھے۔ اسی وجہ سے یہود مدینہ اس دن روزہ رکھتے تھے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے اپنی امت کو بھی اس دن روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہود کی بنسبت ہم پر زیادہ حق بنتا ہے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روزہ اور ملانے کی ہدایت فرمائی تاکہ یہود کی مشابہت لازم نہ آئے۔ اسی حدیث اور سنت پر عمل کرتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمان یوم عاشور کو اور اس سے ایک دن قبل یا بعد میں روزہ رکھتے ہیں۔ یوم عاشور کو اسلامی کلینڈر میں شروع دن سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔
اسلامی تاریخ میں یوم عاشور کو سنہ 61ہجری میں کربلا کے میدان میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لاڈلے نواسے اور جگر گوشہ رسول سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے لال سیدنا حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما سمیت خانوادہ نبوت کے شہزادوں کی مظلومانہ شہادت کے عظیم تاریخی سانحے کی نسبت سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے اور یقینا یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے آج چودہ سو سال گزرجانے کے بعد بھی اہل دل کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ بظاہرجناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والے چند بد نصیبوں کے ہاتھوں ریحانة النبی جگر گوشہ بتول سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور ان کے خاندان کی شہادت کا سانحہ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے ماتھے پر لگا ایک ایسا داغ ہے جو شاید قیامت تک نہیں مٹا یا جاسکے گا۔ تاریخی واقعات کی کوئی بھی توجیہ و تشریح ایسی نہیں ہوسکتی جو اس سانحے کی شدت و سنگینی کو کم کرسکتی ہو اور اس کے شقی القلب ذمہ دار کرداروں کے جرم عظیم کو چھپا سکتی ہو، اسی طرح کوئی نوحہ ،سینہ کوبی اورماتم اس غداری اور بدترین بے وفائی اور دھوکہ دہی پر دہ نہیں ڈال سکتا جو کوفہ والوں اور کوفی مزاج لوگوں کی جانب سے اہل بیت اطہار کے ساتھ کی گئی۔
اس لیے آج چودہ صدیاں گزرجانے کے بعد واقعہ کربلا کے اسباب اور پس منظر پر بحث و مباحثہ کرنے اور امت میں مزید تفرقہ پھیلانے کا کوئی فائدہ اور حاصل نہیں نکلے گا البتہ اس سانحے سے متعلق اتفاقی نکات کو سامنے رکھ کر کربلا کے اصل سبق اور پیغام اور شہدائے کربلا کے مشن اور مقصد کو سامنے رکھ کرامت کے موجودہ مسائل اور دکھوں کے ازالے کی سبیل نکالی جاسکتی ہے۔اس امر پر ایک شرذمہ قلیلہ کو چھوڑ کر امت کے تمام طبقات کا اتفاق ہے کہ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما جس مشن کو لے کرجرا¿ت و عزیمت کے راستے پر نکلے تھے ،وہ سراسر حق تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جوکامل و اکمل دین اور عادلانہ نظام امت کو دے کر دنیا سے پردہ فرماگئے تھے، اس کو اسی کامل و اکمل صورت میں زندہ اور نافذ رکھاجائے اور اس میں کسی قسم کی آمیزش نہ ہونے دی جائے۔ مسلمانوں کا اجتماعی نظم ذاتی یا گروہی استبداد، موروثی ملوکیت، جبر اور عصبیت کی بجائے قرآن و سنت کی بالادستی ،شورائیت، عدل گستری اور عوام دوستی پر قائم ہو اور امت مسلمہ کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو اس بار گراں کو اٹھانے کی صلاحیت و استعداد سے بہرہ ور بھی ہوں۔
گویا کربلا کے میدان میں لکھی جانے والی عظیم داستان شجاعت و شہادت کا پیغام احیاءدین ہی تھا۔ آج چودہ سو سال بعد بھی کربلا کا پیغام یہی ہے کہ اللہ کے دین کو ہر شعبے میں زندہ اور نافذ کیا جائے اور ظلم اور نا انصافی کے ہر مظہر اور ہر نظام کو چیلنج کیا جائے۔ مگرآج کا ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم زبانی کلامی حد تک تو اہل بیت اطہار سے محبت و عقیدت کا اظہار بہت کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں محرم کا مقدس اور محترم مہینہ ہمارے لیے اب ایک آزمائش کا پیغام بن کر آتا ہے، ہماری پوری حکومتی مشینری،سیکیورٹی ادارے اور سول انتظامیہ کی جان سولی پر اٹکی ہوئی ہوتی ہے کہ کہیں خدانخواستہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آجائے۔ اس مہینے میں کئی دنوں تک ملک کا کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے۔ بہت سے علاقوں میں راستوں کی بندش اور لاو¿ڈ اسپیکر کے بے رحمانہ استعمال کے باعث لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہوجاتی ہیں۔ اربوں روپے چند دنوں میں سیکورٹی پر پھونک دیے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہاں کوئی فرقہ اور طبقہ ایسا نہیں ہے جو یوم عاشور کی فضیلت و اہمیت کا منکر ہو یا جسے شہدائے کربلا سے محبت و عقیدت نہ ہو۔ باہر کی دنیا حیران ہوتی ہے کہ ایک اسلامی ملک میں جہاں کی اٹھانوے فی صد آبادی مسلمان ہے، مقدس ایام کے دوران اتنی کشاکش اور خوف کی فضا کیوں پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملہ محبت و عقیدت کا نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ ہم نے بدقسمتی سے دینی مقدسات کو بھی اپنے گروہی تعصبات کے اظہار، طاقت کے مظاہرے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے موقع کے طور پر استعمال کرنے کی عادت بنالی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور دیکھیں کہ کہیں ہمارا طرز عمل ان مقدس ہستیوں کی تعلیمات اور پیغام کے بالکل برعکس تو نہیں ہے جن کے نام پر ہم یہ سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔ شہدائے کربلا نے احیائے دن کے جس عظیم مقصد کی خاطر اتنی بڑی قربانی دی تھی،ہمارے اعمال و افعال کی اس مشن کے ساتھ کیا مناسبت ہے؟ خود ہماری زندگیوں میں کتنا دین ہے اورہم نے اہل بیت اطہار سے محبت و عقیدت کے نام پر جو رسمیں اور طور طریقے ایجاد اوراختیار کر رکھے ہیں، وہ ان تقدس مآب ہستیوں کی تعلیمات سے کس قدر لگا کھاتے ہیں۔ آج دنیا میں چاروں طرف ظلم ، نا انصافی اور جبر کا راج قائم ہے، مسلمانوں کو دنیا کے کئی خطوں میں کر بلا کا سامنا ہے، خاص طور پر فلسطین کے ہمارے مسلمان بھائی جس ظلم، درندگی اور بہیمیت کا شکار ہیں، وہ برداشت سے باہر ہوچکا ہے، ایسے میںیہ پوری امت مسلمہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ حسینیت کا علم بلند کرکے میدان عمل میں آجائے اور اسلام کی سربلندی، اعلاءکلمة اللہ اور احیاءدین متین کے لیے ہر خاص و عام کمر بستہ ہوجائے۔
