موسمیاتی تبدیلی، خطرات اور کرنے کے کام

محکمہ موسمیات اور دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے جاری کردہ انتباہ کے مطابق ملک بھر میں شدید مون سون بارشوں اور ممکنہ سیلاب کے قوی امکانات ہیں۔ کشمیر، گلگت بلتستان، اسلام آباد، پوٹھوہار، ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور، بالاکوٹ، مری اور گلیات میں لینڈ سلائیڈنگ اور ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ ہے۔ خیبرپختونخوا کے شہروں پشاور ، چارسدہ، نوشہرہ، کوہاٹ، سوات، چترال، ڈی آئی خان، بنوں اور مردان میں اربن فلڈنگ، اور دریائے کابل و سوات میں پانی کا بہاؤ بڑھنے کی توقع ہے۔ اسی طرح پنجاب کے شہروں راولپنڈی، اٹک، چکوال، جہلم، منڈی بہاؤالدین، گجرات، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، نارووال، لاہور، فیصل آباد، سرگودھا، شیخوپورہ اور قصور میں شدید بارشوں سے نشیبی علاقوں میں سیلابی صورت حال بن سکتی ہے، جبکہ 2سے 5جولائی کے دوران کراچی، حیدرآباد، ٹھٹھہ اور بدین میں بھی اربن فلڈنگ کا خدشہ ہے۔ این ڈی ایم اے نے عوام سے ندی نالوں کو عبور کرنے سے گریز کرنے، کمزور انفراسٹرکچر، درختوں اور بجلی کے کھمبوں سے دور رہنے کی اپیل کی ہے، اور سیاحوں کو موسمی حالات سے باخبر رہنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ حفاظتی تدابیر اور مربوط حکومتی اقدامات کو ہنگامی بنیادوں پر یقینی بنایا جائے۔

غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلیاں آج ایک ہمہ گیر انسانی بحران بن چکی ہیں جو زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہی ہیں۔ دنیا بھر میں شدید موسمی حالات جیسے ہیٹ ویوز، سردی کی شدت، طوفان، سیلاب، قحط اور خشک سالی میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات خاص طور پر شدید ہیں۔ 2022کے تباہ کن سیلاب نے 33ملین لوگوں کو متاثر کیا، اور رواں سال بھی پری مون سون بارشوں کی شدت کے امکانات ہیں۔ ملک کے جنوبی اور وسطی علاقوں میں درجہ حرارت 50ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر جا رہا ہے، جبکہ گلیشیئرز پگھلنے کے باوجود پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ناکافی ہونے کے سبب بعد میں شدید قلت پیدا ہو رہی ہے، جس کا زرعی نظام اور معیشت پر براہ راست اثر پڑ رہا ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر پیرس معاہدہ اور COP اجلاسوں کے ذریعے کاربن گیسوں کے اخراج کو محدود کرنے اور ترقی پذیر ممالک کو گرین فنڈنگ فراہم کرنے جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے بھی بِلین ٹری سونامی پروگرام اور نیشنل کلائمیٹ پالیسی جیسے اقدامات کیے ہیں، تاہم ان میں منصوبہ بندی کی کمی، مقامی حکومتوں کا غیر فعال ہونا اور ہنگامی نظام کی کمزوری جیسی خامیاں نمایاں ہیں۔ سوات میں 27جون کو دریائے سوات میں 17سیاحوں کے ڈوبنے کا حالیہ واقعہ حکومتی نااہلی اور بدانتظامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جہاں ریسکیو اداروں کی تاخیر اور ناکافی تیاری نے صورتحال کو مزید ابتر کیا۔ یہ سانحہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ مقامی سطح پر کرپشن اور احتساب کی کمی سنگین نتائج کا باعث بن رہی ہے۔ اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر کیے گئے حفاظتی پشتوں میں شگاف پڑ جاتے ہیں لیکن حکومت نے اپنی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔

ماہرین کے مطابق آنے والے سالوں میں پاکستان کو سالانہ بنیاد پر شدید بارشیں، طوفان، سیلاب، زرعی زمینوں کی تباہی، خوراک کی کمی، شہری علاقوں میں گرمی سے اموات، پانی کا بحران، پناہ گزینوں میں اضافہ، غربت، بے روزگاری اور بیماریوں کی وبائیں جیسے خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فوری اور مؤثر تدابیر ناگزیر ہیں۔ ریاستی سطح پر نالوں، ڈرینیج سسٹم اور ڈیموں کی فوری صفائی اور بہتری، شہری منصوبہ بندی کو موسمیاتی تبدیلی کے مطابق ڈھالنا، ہر ضلع میں ”کلائمیٹ ایمرجنسی یونٹ” کا قیام، اور موسمی اثرات سے محفوظ فصلوں کی کاشت پر توجہ دینا ضروری ہے۔ سماجی سطح پر عوامی شعور میں اضافہ، اسکولوں میں ماحولیاتی تعلیم کو لازمی قرار دینا، پانی اور بجلی کے غیر ضروری استعمال سے اجتناب اور شجرکاری کو قومی فریضہ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انفرادی سطح پر ہر فرد کو پانی بچانے، درخت لگانے، گرمی میں احتیاط برتنے کی عادت اپنانی چاہیے اور مقامی سطح پر کمیونٹی رضاکار گروپ قائم کرنے چاہئیں۔ یہ تمام اقدامات موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے بچنے کے لیے ضروری ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے جو پاکستان کے لیے ایک بڑا امتحان اور موقع دونوں ہے۔ سوات جیسے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ محض اعلانات اور کمیٹیاں بنانے سے حالات نہیں بدلیں گے، بلکہ ٹھوس اقدامات اور جوابدہی ضروری ہے۔ اگر ہم ابھی سے سنجیدگی سے منصوبہ بندی کریں اور اسے تعلیمی، سماجی، معاشی اور دینی مسئلہ سمجھ کر اجتماعی جدوجہد کریں تو بڑے نقصان سے بچ سکتے ہیں، ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا اور آنے والی نسلیں ہماری غفلت کا خمیازہ بھگتیں گی۔ پانی کے ذخائر میں اضافہ، زراعت پر توجہ اور خوراک میں خود کفالت اختیار کرنا ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہے۔ انسانی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بحیثیتِ مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ ا س کائنات کا نظام اسی خالق کے ہاتھ میں ہے جو اسے پیدا کرنے والا ہے لہٰذا ہمیں زندگی کی دشواریوں کے مقابلے میں فی الاصل اسی کی مدد و نصرت درکار ہے۔ ہمیں درپیش پریشانیوں اور مشکلات سے نکلنے کے لیے جہاں ہمت، امید، حوصلے اور یقین کے ساتھ جدوجہد درکار ہے وہاں ہمیں حق تعالیٰ شانہ سے اس کی رحمت، فضل و کرم اور عطا کی دعائیں بھی مانگنا چاہئیں۔

غزہ میں جاری قتلِ عام اور دنیا کی بے حسی

اسرائیل کی دہشت گرد حکومت اور سفاک افواج کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور یومیہ سو کے قریب فلسطینی اپنے عقیدے، نظریے اور وطن سے محبت کے جرم میں شہید کیے جا رہے ہیں۔ ان پر خوراک، دوائیں اور پانی بند ہے اور ان کے ساتھ جانوروں کے بدتر سلوک کیا جا رہا ہے۔ یہ تمام مناظر مہذب دنیا کے اربوں انسان دیکھ رہے ہیں لیکن وہ صہیونی دہشت گردوں سے معصوم بچوں اور خواتین کو بچانے کی کوئی طاقت نہیں رکھتے۔ یہ منظر نامہ ثابت کرتا ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق، مکالمے، دلیل اور مظلوموں کی سچائی کی کیا حیثیت ہے؟ فی الواقع طاقت ہی دنیا کے فیصلے کر رہی ہے۔ تاہم وہ ممالک جو اس وقت ظالم کا ساتھ دے رہے ہیں جلد یا بدیر مکافاتِ عمل کا شکار ضرور ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ظلم کی رسی کہاں تک دراز ہوتی ہے اور قدرت اپنا فیصلہ کب سناتی ہے؟ جہاں تک مسلم ممالک کا تعلق ہے تو اہلِ غزہ کو ان کی جانب سے اپنی آنکھیں اب بند ہی کر لینی چاہئیں۔