غزہ جنگ بندی۔ مذاکرات یا جھانسہ؟

عالمی ذرائعِ ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق حماس اوراسرائیل کے درمیان دوحہ میں جاری بالواسطہ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، اسرائیل غزہ سے فوجی انخلا اور وہاں امداد کی رسائی کے فلسطینی مطالبے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں جبکہ فلسطینی مقاومتی تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ مکمل جنگ بندی کی ضمانت پر تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر تیار ہے۔اسرائیل جنگ کے میدان میں حماس کو شکست دینے میں ناکام ہے تاہم دوسری طرف اس کا مطالبہ ہے کہ حماس غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے جوکہ عالمی مبصرین کے مطابق ایک لغو اور بے بنیاد مطالبہ ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع یسرائیل کاٹس کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ 60دن کی عارضی جنگ بندی کی مدت میں صرف اور صرف اپنے باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس کے بعد وہ غزہ سے فلسطینیوں کا صفایا کرنے کے اپنے دیرینہ منصوبے پر عمل کرنے میں آزاد ہوں گے ،وہی منصوبہ جس کو امریکا کے موجودہ صہیونی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت حاصل ہے۔عالمی مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیل مذاکرات کے نام پر فلسطینی مقومت کو جھانسہ دینا اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتا ہے۔

غزہ کی جنگ نے دنیا پر یہ حقیقت طشت ازبام کردی ہے کہ انصاف اور حقوقِ انسانی کی نام نہاد علمبردار مغربی ریاستیں دجل و فریب اور منافقت کے کس معیار پر موجود ہیں۔ امریکی انتظامیہ ایک طرف فلسطینی مزاحمت کو کچلنے کے لیے دوہزار پونڈ وزنی بم صہیونی دہشت گردوں کو پہنچا رہی ہے تو دوسری جانب وہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے پر بھی مجبور ہے اور بات چیت میں کامیابی کا سہرا بھی وہ اپنے سر باندھنا چاہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیافلسطینیوں کی سچائی کے مقابلے میں کیا اسرائیل کی دہشت گردی واضح نہیں ہے؟ معصوم بچوں کا قتلِ عام، ایک قوم کی نسل کشی اور خواتین اور بزرگوں کی مسلسل توہین و تذلیل، ان کے ساتھ حقارت آمیز برتاؤ، جیلوں میں قیدیوں پر خوفناک مظالم، اسپتالوں اور شفاخانوں کی تباہی، لوگوں تک خوراک کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈالنا، صحافیوں اور فلاحی تنظیموں کے کارکنوں پر بمباری کرنا اقوامِ متحدہ کے طے شدہ چارٹر کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟ کیا یہ تمام مظالم اور وحشیانہ حرکتیں کرنے کے بعد بھی اسرائیل کو کسی مہذب دنیا کا حصہ شمار کیا جاسکتا ہے؟ کیا دنیا کی کوئی مہذب، تعلیم یافتہ، انسانی شرف و احترام کو تسلیم کرنے اور جیو اور جینے دو کے فلسفے کو درست سمجھنے والی قوم بچوں کے قتلِ عام کا الزام اپنے سر لینا گوارہ کرسکتی ہے؟ یہ شیطانی حرکات وہی گروہ سر انجام دے سکتا ہے جس کا نہ کوئی نسب ہو نہ ہی دنیا میں اس کی کوئی تاریخ ہو اور نہ ہی اسے قومی شرف و عزت کی کچھ بھی فکر ہو۔ عالمی صہیونی تحریک کا مرکز اسرائیل دراصل دہشت گردی کے ایک اڈے سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہے۔ اس مرکز کا انتظام بظاہر جمہوری نظمِ حکومت کے تحت چلایا جارہا ہے لیکن اہلِ غزہ کو کچلنے کے لیے اس جنگ میں جس ڈھٹائی، بے حیائی اور کھلی بدمعاشی کے ساتھ امریکا نے صہیونی دہشت گردوں کو بھاری اسلحے اور دیگر وسائل کے ذریعے سے امداد پہنچائی ہے اس کے بعد دنیا پر یہ بات مزید عیاں ہوچکی ہے کہ اسرائیل نامی دہشت گردی کے اس اڈے کا نظام دراصل وہی عالمی صہیونی لابی چلا رہی ہے جو اس وقت دنیا کے معاشی نظام پر تسلط رکھتی ہے اور اس نے بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، خوراک و زراعت اور ادویہ سازی کے شعبوں اور میڈیا کی مدد سے دنیا کے وسائل کو اپنی دسترس میں لے رکھا ہے اور مزید یہ کہ امریکا سمیت سفید فام اقوام کی معاشی شہ رگ بھی صہیونیت کے اسی پنجے کی گرفت میں ہے۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے کہ امریکی انتظامیہ نے فلسطینیوں کی سچائی اور حقانیت سے منہ موڑ رکھا ہے اور وہ سیاسی مفادات اور انتخابات میں کامیابی کے حصول کی خاطر غزہ میں جنگ بندی کے لیے کوشاں ہے۔

فلسطینی تحریک مزاحمت صرف اپنی یا اُمتِ مسلمہ ہی نہیں بلکہ ان دیگر اقوام کی جنگ بھی لڑ رہی ہے جو کہ عالمی صہیونی لابی کے دامِ فریب میں پھنس چکی ہیں۔ فلسطینی حریت پسندوں کی مزاحمت اور جنگ کی طوالت نے دنیا کے ہر خطے میں انسانی شعور پر دستک دی ہے۔ بڑی تعداد میں انسان عالمی صہیونی تحریک کی سفاکیت، شیطنت اور دنیا کے وسائل پر دسترس کی حرص و لالچ اور مکاری و خودغرضی سے آشنا ہوتے جارہے ہیں۔ یہ بات اب بہت سے لوگوں کو سمجھ آچکی ہے کہ جدید فلسفے اور انسانی علوم کے نام پر انسانی خواہشات کی پیروی اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمائے کے حصول اور بقا کی جنگ میں دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے مسابقت کا جو شیطانی سلسلہ دنیا میں شروع کردیا گیا ہے دراصل اس کے نتائج انسانوں کے لیے کس قدر بھیانک ثابت ہوئے ہیں۔

یہ بات بہرحال حیرت انگیز ہے کہ غزہ میں اکیس ماہ سے جاری آہن و آتش کی برسات اور ہزاروں معصوموں کے خاکستر ہوجانے کے باوجود فلسطینیوں کی قوتِ مزاحمت سر اٹھائے کھڑی ہے۔ اس قوت کو توڑنے اور مسلم اُمہ کی بے بسی، بے چارگی اور ذلت و مسکنت پر فاتحانہ قہقہے لگانے سے صہیونی دہشت گرد اب تک محروم ہیں جبکہ غزہ کی چالیس، پینتالیس کلومیٹر پر پھیلی ہوئی زمین آج بھی تکبیروں کے نعروں سے گونج رہی ہے اور اس چھوٹے سے رقبے کے طول و عرض پر شاید ہی کوئی چپہ ایسا رہ گیا ہو جہاں فلسطینیوں کا لہو نہ گرا ہوا ور صہیونی دہشت گردوں کی شکست کا کوئی ثبوت بھی موجود نہ ہو۔ اس بے مثال مزاحمت کی بنیاد ی وجہ تو خالقِ کائنات کی وہ تائید ہے جو مادی وسائل کی احتیاج نہیں رکھتی اور نہ ہی دنیا کے معاملات کو مغربی دانش کی عینک سے دیکھنے والے ربُّ العالمین کی حکمت کا اِدراک کرسکتے ہیں۔ البتہ انسانی ہمت و استطاعت کی حد تک فلسطینیوں کی بے مثال استقامت، حریت پسندوں کی حربی اور سیاسی بصیرت اور جنگی مہارتوں اور صبر و استقلال نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ حق و صداقت کی گواہی کیسے دی جاتی ہے اور سچ پر قائم انسانوں کی نفسیاتی کیفیات کس طرح دجل و فریب میں مبتلا لوگوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ عالمی قوتوں کو اہلِ غزہ کے نظریے اور ان کی گواہی سے شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ یہ نظریہ اگر عالمِ اسلام میں پھیل گیا تو مغربی افکار، اس کے علوم اور اس کی ترقی یافتہ تہذیب بہرحال شکست کھا جائے گی اور مسلم اُمہ پر مغربی اقوام کا تسلط بہت کمزور پڑ جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم اُمہ ان حقائق کا ادراک کب تک کر پاتی ہے۔