میڈیا رپورٹوں کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چودھری نے ایک غیرملکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ساتھ کوئی چھیڑچھاڑ کی گئی تو دنیا کو اس کے سنگین ترین نتائج بھگتنا ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ عالمی حالات میں جبکہ پاکستا ن حال ہی میں ایک جنگ جیت چکاہے اور اس کے عین پڑوس میں ایران اور اسرائیل اور اس کے ساتھ امریکا کے درمیان ایک بڑی جنگ لڑی جاچکی ہے، پاکستان کے دفاعی پروگرام سے متعلق یہ دوٹوک پیغام دراصل ایک بروقت اور انتہائی معنی خیز پیغام ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کو عالمی سطح پر اپنے ایٹمی پروگرام کے خلاف کسی ممکنہ سازش کی بو سونگھنے کو ملی ہے، جس میں بھارت اور اسرائیل کے ملوث ہونے کا قیاس کیا جارہا ہے۔ اس بیان کی اہمیت اس بات سے بھی دوچند ہوجاتی ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارت کی جانب سے پاکستان میں ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی حمایت اور مالی معاونت کو ایک پالیسی کے طور پر اپنانے کا انکشاف کیا، جس کا ماسٹرمائنڈ بھارت کا قومی سلامتی کا مشیر اجیت دوول ہے۔ پاک فوج کے ترجمان کے مطابق بھارت پاکستان کی سلامتی بالخصوص بلوچستان کو غیرمستحکم کرنے کی منظم سازش میں مصروف ہے اور بھارتی سیاسی قیادت متعدد مواقع پر پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کا اعتراف کرچکی ہے، جسے امریکا اور کینیڈا سمیت کئی ممالک بھی تسلیم کرتے ہیں۔
بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ کوئی نئی بات نہیں۔ سقوط مشرقی پاکستان میں بھارت کا کردار اور اس کے بعد سے پاکستان میں جاری پراکسی وار اس کی واضح مثالیں ہیں۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ کی جانب سے پاکستان میں خاص طور پر بلوچستان میں، دہشت گرد تنظیموں کی حمایت اور انہیں مالی وسائل کی فراہمی ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ نیشنل سیکیورٹی کونسل آف پاکستان کی 1971ء کی رپورٹس اور بعدازاں مختلف تحقیقاتی کتب میں سقوط مشرقی پاکستان میں بھارت کی براہ راست مداخلت کا تفصیل سے ذکر موجود ہے۔ آج بھی بلوچستان میں بھارتی نیٹ ورک مکمل طور پر بے نقاب ہوچکا ہے، جیسا کہ بارکھان اور دیگر علاقوں میں حالیہ ٹارگٹڈ آپریشنز کے دوران بھارتی ساختہ جدید اسلحہ اور سیٹلائٹ فون کے ساتھ دہشت گردوں کی گرفتاری سے ظاہر ہوتا ہے۔ پاکستان کلبھوشن یادو جیسے کئی بھارتی ایجنٹوں کو گرفتار کرچکا ہے اور اس نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ طلب کیے جانے پر ناقبلِ تردید ثبوت دنیا کے کسی بھی پلیٹ فارم پر پیش کرسکتا ہے۔
پاکستان کے خلاف بھارت کی پراکسی وار کے حوالے سے اب عالمی سطح پر بھی تحقیق کی جارہی ہے۔ حال ہی میں ڈاکٹر لارا ہاپکنز کی 88 صفحات پر مشتمل تحقیق ”Proxy Logic in South-Central Asia” اور پروفیسر میگوئل الواریز کی ”The Zaranj Corridor” جیسی رپورٹیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ بھارت سالانہ لاکھوں ڈالر افغانستان کے راستے بی ایل اے جیسے مسلح دہشت گرد گروہوں تک پہنچا رہا ہے۔ حالات واقعات پاکستان کے اس موقف کی بھرپور تائید کرتے ہیں کہ خطے میں دہشت گردی افغان حکومت کے بعض عناصر، ٹی ٹی پی اور بھارت کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے۔ ایسے میں یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کسی بھی سازش کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہو جس پر افغان عبوری حکومت کی پالیسی اور دہشت گردوں پر قابو نہ پانے کی صلاحیت سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔
ان تمام شواہد اور معاصر حقائق کی روشنی میں پاکستان کا یہ واضح موقف کہ اس کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر محفوظ اور ناقابلِ تسخیر ہے، انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے جس کی جوہری صلاحیتیں اس کی دفاعی صلاحیتوں اور موجودہ علاقائی توازن پر اعتماد کی عکاسی کرتی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ریاستِ پاکستان نے اِسلامی ریاست کے خلاف کسی بھی جارحیت کو علاقائی استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور جہاد یا قتال کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے۔ پاک فوج کا عزم ہے کہ وہ کسی بھی ریاستی یا غیرریاستی عنصر کو قومی سلامتی سے کھیلنے کی اجازت نہیں دے گی۔ یہ پیغام ان عناصر کو بھی ہے جو مذہب، سیاست یا قومیت اور لسانیت پر مشتمل نعروں کے سائے میں بھارت یا دیگر غیرریاستی عناصر کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ ان حالات میں فتنہ ہندوستان یا خوارج کے خلاف افواج پاکستان کی کاوشو ں کی اہمیت کسی بھی ذی شعور سے مخفی نہیں ہوسکتیں۔ تجزیہ کارں کے مطابق پاکستان کی موجودہ دفاعی اور خارجہ پالیسی بھی ایک نئی جہت اختیار کرچکی ہے۔
ایک طرف بھارت کے مقابلے میںچین، بنگلادیش، پاکستان کا سہ فریقی اتحاد بن چکا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کے متوقع مقابلے میں ترکیہ، آذربائیجان، پاکستان کا اتحاد تشکیل پاچکا ہے جس میں ایران بھی مشترکہ دفاع والے اتحاد کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ حال ہی میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر امریکی اعتراضات کے باوجود کام شروع ہونے اور ایران و آذربائیجان سے سستے نرخوں پر تیل کی آمد کے امکانات پاکستان کی بہترین سفارت کاری کا ثبوت ہیں۔ ماہرین کا مشورہ ہے کہ پاکستان کو اب محض بیانات سے آگے بڑھ کر اقوام متحدہ اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے فورمز پر ان تمام رپورٹس اور فوجی انٹیلی جنس کے ثبوتوں کی بنیاد پر ایک واضح پالیسی پیش کرنی چاہیے۔ ایران اور افغانستان کی بفرزون کی نگرانی کے لیے سہ فریقی جیوفینسنگ پروگرام کی تیاری، جس میں سیٹلائٹ امیجری اور مشترکہ موبائل انسپکشن ٹیمیں شامل ہوں اور بلوچستان میں ہائی ویلیو پبلک ورک اسکیمز (تعلیم، فائبر نیٹ، روزگار) کو تیز کر کے بی ایل اے/ بی ایل ایف کا مقامی سپورٹ بیس فنا کرنا، وہ ٹھوس اقدامات ہیں جن سے ریاست دشمن نیٹ ورک کا خاتمہ ممکن ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا حالیہ بیان اور پاکستان کے دفاعی و سفارتی اقدامات اس بات کا اعلان ہیں کہ پاکستان اب محض دفاعی پوزیشن پر نہیں ہے بلکہ جارحانہ سفارتی اور انٹیلی جنس پالیسیوں کے ساتھ میدان میں اتر رہا ہے۔ اگر خطے میں کوئی طاقت پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے ارادے رکھتی ہے تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ ایٹمی پاکستان اپنے دفاع اور علاقائی استحکام کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرے گا۔ پاکستان کی ناقابلِ تسخیر جوہری صلاحیت نہ صرف اس کی اپنی سلامتی کی ضمانت ہے بلکہ خطے میں طاقت کے توازن اور امن و استحکام کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
