عالمی ذرائع ابلاغ میں پیش کردہ تجزیاتی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا صدر مقرر ہونا اور اس سے قبل انسداد دہشت گردی کمیٹی کا نائب چیئرمین بننا، عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی سرگرمیوں اور دہشت گردی کے خلاف اس کی موثر کاوشوں کی پذیرائی کا واضح ثبوت ہے۔
یہ پیش رفت بھارت کی پاکستان مخالف بیانیے کے لیے ایک اہم رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی عالمی پہچان نے بھارت کے اندر بی جے پی اور کانگریس کے درمیان سیاسی کشمکش کو بڑھا دیا ہے۔ کانگریس رہنماوں کے مطابق مودی حکومت پہلگام دہشت گرد حملے اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے حوالے سے بھارت کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔ کانگریس کے مطابق مودی حکومت کی پاکستان مخالف مہم اور ”آپریشن سندور“ الٹا بھارت کے لیے ہی مسائل کا باعث بن چکی ہے۔ تجزیہ کار بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ مودی حکومت کی پاکستان کو دہشت گرد قرار دینے کی عالمی سفارتی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں بلکہ اس قسم کی اوچھی حرکتوں نے بھارت کو عالمی سفارتی تنہائی کی جانب دھکیل دیا ہے، بعض تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت اپنی ناکامی کا بدلہ لینے کے لیے کوئی بھی اوچھی حرکت کر سکتا ہے۔
عالمی سطح پر پاکستان کی کامیابی اور بھارت کی ناکامی اس حقیقت کو مزید نمایاں کرتی ہے کہ پاکستان کو نہ صرف بھارتی جارحیت کے خطرات درپیش ہیں بلکہ اسے اپنے موقف کے حوالے سے عالمی سفارتی محاذ پر بھی مسلسل سرگرم رہنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب پاکستان داخلی طورپر ایک ایسی پراکسی جنگ کا سامنا کر رہا ہے جس کی پشت پناہی بھارت کر رہا ہے اور جس کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کی جا رہی ہے۔ اس جنگ کا سب سے بڑا نشانہ خیبرپختونخوا ہے، جہاں رواں سال کے پہلے چند ماہ کے دوران ہی دہشت گردی کے مختلف واقعات میں سیکڑوں افراد نے اپنی جانیں گنوائیں اور زخمی ہوئے۔ یہ واقعات، جن میں پولیس، ایف سی، خاصہ دار اہلکار اور عام شہری شامل تھے، صوبے کے پندرہ اضلاع میں رونما ہوئے، جن میں بنوں اور شمالی وزیرستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
باجوڑ میں ایک ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں اسسٹنٹ کمشنر اور تحصیلدار سمیت کئی افراد کی شہادت نے اس جنگ کی سنگینی کو مزید نمایاں کیا ہے۔ ان تمام واقعات کے خلاف سیکڑوں مقدمات درج کیے گئے، جن کی تفتیش انسداد دہشت گردی کے محکمے کر رہے ہیں لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ کیا تعاون کیا جا رہا ہے؟ یہ بھی ایک سنجیدہ سوال ہے۔ دراصل پاکستان کو اس وقت ایک ایسی گوریلا جنگ کا سامنا ہے جس کی جڑیں تاریخی اور معاصر دونوں تناظر میں گہری ہیں۔ ماہرین کی آراء اور تاریخی شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستان کو ہمیشہ اپنے پڑوسی ملک افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی کا سامنا رہا ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قاتل سے لے کر وزیرستان میں دہشت گردانہ حملوں کی تاریخ تک سب کے روابط افغانستان سے ثابت ہوئے۔ سن دو ہزار کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کی جو لہر آئی، اس کے پیچھے افغان سرزمین سے ہونے والی سرگرمیوں کا کردار نمایاں رہا۔ سرینا ہوٹل، داتا دربار، واہگہ بارڈر، پشاور پولیس لائن، اور بنوں کینٹ پر حملے، حتیٰ کہ پاکستان کی تاریخ کے بدترین دہشت گردی کے واقعے یعنی آرمی پبلک اسکول، پشاور میں ملوث عناصر کو بھی افغانستان سے ہدایات ملی تھیں۔ ان حملوں میں سیکڑوں پاکستانیوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔
پاکستان کے خلاف جاری گوریلا جنگ یا پراکسی وار سے متعلق تمام شواہد اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ محض ایک داخلی معاملہ نہیں بلکہ ایک گہری سازش کا حصہ ہے جس کی پشت پر بھارت اور اسرائیل کا مشترکہ اتحاد کام کر رہا ہے جبکہ افغانستان کی سرزمین سہولت کاری کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ ان واقعات کا مقصد پاکستان کے عوام میں عدم تحفظ اور ریاست کے خلاف بے اعتمادی پیدا کرنا ہے۔ یہ امر ملحوظ رہنا چاہیے کہ پاکستان کے عوام اس پراکسی جنگ کے نتیجے میں بے پناہ مصائب کا شکار ہیں۔ دہشت گردی، بدامنی اور معاشی نتائج کے طورپر اس سے پیدا ہونے والی مہنگائی نے ان کے روزمرہ کے معمولات کو درہم برہم کر دیا ہے اس کے برعکس، اشرافیہ کی شاہانہ طرز زندگی عوام کی مشکلات میں اضافہ کرتی نظر آتی ہے، جس سے معاشرتی ناہمواری کا احساس بڑھتا ہے۔ اس پراکسی جنگ سے نجات کے لیے شرعی اور منطقی حل درکار ہیں اور اس سلسلے میں علماءکرام کا کردار نہایت اہم ہے۔
حال ہی میں ممتاز عالم دین اور جامعة الرشید کے رئیس مفتی عبدالرحیم نے گوریلا جنگ کے تناظر میں اہم شرعی نکات پیش کیے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ اگر گوریلا جنگ میں کسی پر شک ہو تو اس کی گرفتاری شریعت کے مطابق جائز ہے، اور اگر ریاست شک کی بنیاد پر افراد کو گرفتار کرے تب بھی شریعت اجازت دیتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ گوریلا جنگ کا مقصد مقامی آبادی کو نقصان پہنچا کر ریاست سے متنفر کرنا ہے، اور اگر مسجد پر حملہ یا خودکش دھماکہ ہو تو ریاستی ردعمل لازمی ہوتا ہے۔ اگر ردعمل میں کوئی بے گناہ مارا جائے تو فوج دیت دے گی لیکن گنہگار نہیں ہوگی۔ جناب مفتی عبدالرحیم نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردوں کی سوشل میڈیا پر حمایت کرنے والے بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں، اور صرف قاتل نہیں بلکہ سہولت کار بھی قتل کے گناہ میں شامل ہوتے ہیں۔ مفتی عبدالرحیم نے تلقین کی کہ مقامی افراد کو جنگ سے گریز اور امن کو ترجیح دینا چاہیے کیونکہ گوریلا جنگ کی منصوبہ بندی مقامی افراد کو مشتعل کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔
علاوہ ازیں منطقی طور پر، اس جنگ سے نمٹنے کے لیے مضبوط سفارت کاری، خاص طور پر افغانستان کے ساتھ، اور سرحدوں کا موثر انتظام ضروری ہے۔ داخلی سلامتی کے نظام کو مزید مضبوط بناتے ہوئے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی، انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشنز اور مقامی سطح پر عوام کے تعاون کو فروغ دینا ناگزیر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، عوام کے معاشی بوجھ کو کم کرنا اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا تاکہ معاشرتی بے چینی کو کم کیا جا سکے نیز اشرافیہ کی شاہانہ طرز زندگی پر قابو پانا اور وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی ضروری ہے۔ ایک ایسے قومی بیانیے کی تشکیل جو دہشت گردی کی نظریاتی جڑوں کو کاٹے اور عوام کو متحد کرے، نیز مضبوط عزم، قومی یکجہتی، اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعامل کے لیے ایک جامع سفارتی حکمتِ عملی اس جنگ سے نجات کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
