ابراہیم معاہدہ قبلہ اول سے غداری

ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت کے دوران اسرائیل اور کئی عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے ستمبر 2020 میں تشکیل پانے والے نام نہاد معاہدے ابراہیم اکارڈ کی بازگشت آج پھر سنائی دے رہی ہے۔ اس معاہدے کا مقصد یہی ہے کہ اسرائیلی بالا دستی کو تسلیم اور مسئلہ فلسطین کو فراموش کر دیا جائے گا۔ امن اور فلسطینیوں کے حقوق کے نام پر مذکورہ معاہدے کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب کرکے دراصل امت مسلمہ کو دھوکہ دیا گیا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس کا نام ”معاہدہ ابراہیم” ہی کیوں رکھا گیا؟ اس پر یہ دلیل دی گئی کہ تینوں بڑے ادیان کے ماننے والے یعنی مسلمان مسیحی اور یہودی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یکساں احترام کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم میں دو ٹوک انداز میں فرمایا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی تھے اور نہ ہی مشرکین میں سے تھے بلکہ مسلمان تھے۔ (سورہ آل عمران آیت67)

ابراہم اکارڈ کے تحت متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے جن منصوبوں کو حتمی شکل دی گئی، ان کے نتیجے میں کئی عرب ممالک نے نہ صرف اسرائیل سے تعلقات کو باقاعدہ تسلیم کرنا شروع کر دیا تھا بلکہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس سمیت متعدد شعبوں میں اسرائیل کے ساتھ باہمی تعاون کے منصوبوں کو عملی شکل دینا شروع کر دی ،ماضی میں جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس معاہدے سے فلسطین کے حالات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور نہ ہو گی۔ وہاں نسل کشی کا عمل ایک طے شدہ انداز سے جاری ہے۔

افسوس!وطنِ عزیز میں بھی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے نظریہ اور اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہودی قاتل ریاست کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ذہن سازی کی جا رہی ہے۔ میں برملا کہنا چاہتا ہوں کہ حکومتِ وقت کی جانب سے ایسا قدم اٹھایا گیا تو پاکستانی قوم اس کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہو گی اور مظلوم فلسطینیوں کے خون سے غداری نہیں ہونے دے گی۔ واضح رہے یہودیوں کے مذموم منصوبے گریٹر اسرائیل میں ایٹمی پاکستان بڑی رکاوٹ ہے۔ اسرائیل کے بانی اور پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے 1967میں پانچ عرب ریاستوں کے خلاف جنگ جیتنے کے بعد اپنی تقریر میں صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ہمارے وجود کیلئے خطرہ صرف پاکستان ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرنے والے سورہ المائدہ کی آیت 82پر بھی غور کر لیں جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ سب لوگوں سے زیادہ مسلمانوں کا دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے اور سب سے نزدیک محبت میں مسلمانوں سے ان لوگوں کو پائیں گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاری ہیں یہ اس لیے کہ ان میں علماء اور درویش ہیں اور اس لیے کہ وہ تکبر نہیں کرتے۔

قبل ازیں ٹرمپ نے اپنی سابقہ مدتِ صدارت میں عالمی قانون اور اقوام متحدہ کے اصول کے خلاف چھ دسمبر 2017 ء کو مقبوضہ بیت المقدس کو قابض اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔ پھر 14مئی 2018کو امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیا گیا۔ ٹرمپ نے اس دن یہ کہا تھا کہ یہ اسرائیل کیلئے عظیم دن ہے۔ ابراہیمی معاہدہ Deal of century بلکہ deal of deathکا ہی حصہ ہے۔ صدی کا سودا یعنی اس دجالی سودے سے مراد مقبوضہ بیت المقدس کا یہودیوں کے ہاتھ سودا کیا جانا ہے۔ اس سودے کی قیمت عرب حکمران اپنی حکومتوں کے دوام کی شکل میں وصول کرنا چاہتے ہیں۔ واقعی مسلمانوں کے مقدس مقامات اور فلسطینیوں کی کوئی پروا نہیں۔ اس سودے کی جو خفیہ شقیں ہیں ان کے مطابق عرب اور خلیجی ممالک مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر لیں گے۔ اس سلسلے میں ان کے عوام کی جانب سے اگر مزاحمت کی کوشش کی گئی تو اسے روکا جائے گا۔ بدلے میں ان عرب حکومتوں کو امریکا اور خطے میں اسرائیل کی جانب سے مکمل تحفظ مہیا کیا جائے گا۔

یہ دجالی سودا اپنے انجام کو کیسے پہنچتا ہے اس کا اندازہ آنے والے وقت میں ہی لگایا جا سکے گا۔ یہ دجالی سودا بے شک آج ہو رہا ہے لیکن اس کی تیاری پچھلے سو برسوں کے دوران کی گئی تھی۔ اس سودے کی ابتدا تقریبا سو برس قبل اس وقت ہوئی جب خلافتِ عثمانیہ کے دور میں سلطان عبدالحمید کو یہودی سیموئیل کے ذریعے عالمی صہیونیت نے یہ پیشکش کی تھی کہ وہ سلطنتِ عثمانیہ کے تمام قرضے اتار دیں گے اگر فلسطین میں یہودیوں کو الگ وطن بنانے کی اجازت دے دی جائے لیکن سلطان عبدالحمید نے یہ پیشکش ٹھکرا دی تھی۔ اسی دجالی سودے کی خاطر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کرائی گئی تھیں جرمنی سمیت مغرب کے کسی ملک کی جغرافیائی شکل بدلی نہیں گئی تھی لیکن سلطنتِ عثمانیہ کا جغرافیہ پارہ پارہ کر دیا گیا۔ جرمنی شکست کھا چکا تھا لیکن برطانیہ اور فرانس نے اسے اپنے درمیان جغرافیائی طور پر تقسیم نہیں کیا مگر پورا مشرق وسطی فرانس اور برطانیہ نے آپس میں بانٹ لیا۔ کیوں؟

اس دجالی صہیونی منصوبے کیلئے اقوام متحدہ کا وجود عمل میں لایا گیا تھا تاکہ ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم سے اس ناجائز دجالی عمل کو قانونی شکل دی جا سکے۔ یاد رہے اگر یہ منصوبہ پروان چڑھ جاتا ہے تو اقوام متحدہ کا وجود ختم کر دیا جائے گا۔ اسی مقصد کی بار آوری کیلئے نائن الیون جیسا ڈرامہ رچایا گیا تاکہ جو مسلم ممالک اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بنیں انہیں ختم کیا جا سکے باقی مسلم حکومتوں کو خبردار کر دیا جائے کہ وہ ایک حد سے آگے نہ بڑھیں۔ اسی منصوبے کے تحت افغانستان عراق اور لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی اور اب چونکہ اس دجالی منصوبے پر عملدرآمد کا وقت قریب ہوا چاہتا ہے اس لیے مشرق وسطی میں آگ پھیلا دی گئی ہے۔ ہر قسم کی مزاحمت ختم کر نے کیلئے ایران کو تنہا کرنے کی سازش کی گئی۔ اسرائیل کے نام پر مقبوضہ فلسطین کی سرزمین پر بڑی مغربی طاقتوں کی سرپرستی میں جو گھناونا ترین ڈرامہ رچایا گیا اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔

اسرائیل جب ایک الگ ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تو اس کے کل رقبے (تقریباً پانچ ہزار مربع کلو میٹر) پر کم و بیش پانچ لاکھ یہودی آباد تھے۔ آج اسرائیل کا رقبہ 22ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی 90لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ تھیوڈور ہرتزل کی یہودی مملکت (The Jewish State) نامی کتاب میں موجود صہیونی ریاست کے نقشے میں فلسطین، اردن، شام، لبنان، عراق اور کویت کے بیشتر علاقے جبکہ سعودی عرب کا بھی ایک بڑا حصہ شامل کیا گیا تھا۔ ناجائز صہیونی ریاست کی حدود کو مدینہ منورہ تک وسیع کیے جانے کا مذموم پلان ہے۔ مصر سے صحرائے سینا قاہرہ اور سکندریہ کو بھی اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا ہے جبکہ یہ عبارت” اے اسرائیل تیری سرحدیں دریائے فرات سے دریائے نیل تک ہیں” اسرائیلی پارلیمنٹ کی پیشانی پر بھی کندہ ہے جسے عملی جامہ پہنانے کیلئے وہ ہر دم کوشاں رہتے ہیں۔ تھیوڈور ہرتزل کی صہیونی تحریک کا اصل مقصد یہی تھا کہ فلسطین پر دوبارہ قبضہ کیا جائے اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جائے۔

مغرب آج بھی یہ دعوی کرتا ہے کہ صہیونیت کا منصوبہ اس کے ہاں تشکیل پایا جو یہودیوں سے محبت کی ایک بڑی نشانی ہے۔ اسرائیلی ریاست اسی محبت کا نتیجہ ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہوا اس کے پس پردہ مقاصد کیا تھے؟ مغرب نے جب یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین انعام کے طور پر تفویض کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا اس وقت یورپ میں جرمنی ایسا مقام تھا جہاں یہودی سب سے زیادہ آباد تھے۔ اس کے بعد امریکی سرزمین ان کی اکثریت کی آماجگاہ بنی۔ یہ انعامات وہاں کیوں نہیں عطا کیے گئے؟ تاکہ وہ وہاں اپنا وطن تشکیل دے سکتے؟ فلسطینی عوام کے حقوق غصب کرنے کا پس منظر اتنا مکروہ ہے جس کی مثال انسانیت کی تاریخ میں ملنا محال ہے۔