پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ناروا اضافہ

حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کر دیا، جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کر دیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 10 روپے 39 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد نئی قیمت 262 روپے 59 پیسے سے بڑھ کر 272 روپے 98 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ اسی طرح پیٹرول کی قیمت میں 8 روپے 36 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 258 روپے 43 پیسے سے بڑھ کر 266 روپے 79 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔

یہ اضافہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کو جواز بناکر کیا گیا ہے حالانکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ایران اسرائیل جنگ کے دوران بڑھ کر 80 ڈالر فی بیرل تک پہنچنے کے بعد دوبارہ کم ہوکر 65ڈالر تک آچکی ہیں جس کے بعد پاکستان میں لوگ تیل کی قیمتوں میں کمی کی توقع کر رہے تھے مگر ایسا لگتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے مطالبے پر کاربن لیوی بڑھائے جارہی ہے اور جواز بین الاقوامی منڈی میں حالیہ دنوں اضافے کا پیش کیا جارہا ہے ۔ چنانچہ خبری ذرائع کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں میں بھی 2 روپے 50 پیسے کاربن لیوی عائد کردی گئی ہے۔ اس سے پہلے اوگرا کی جانب سے فکسڈ ریٹ والے گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں بھی یکمشت 50فی صد کا اضافہ کیا گیاہے جوکہ یکم جولائی سے نافذ العمل ہوچکا ہے۔ یوں نئے بجٹ میں عوام کی ناتواں کمر پر مزید بوجھ ڈالنے میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو اسے پہلے گیس اور اب تیل کی قیمتوں میں بلاجواز اضافے کے ذریعے پورا کردیا گیا ہے۔ اس کا فوری نتیجہ ٹرانسپورٹ کرایوں میں من مانے اضافوں کی صورت میں سامنے آگیا ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور گیس کے نرخوں میں ہونے والے ان اضافوں سے اشیاء صرف کی مہنگائی کی جو نئی لہر آنی ہے، وہ اب نوشتۂ دیوار ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات میں بے رحمانہ اضافے پر عوامی حلقوں نے سخت مایوسی اور غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور اسے حکومت کی اقتصادی پالیسیوں اور معاشی حکمت عملی کی ناکامی سے تعبیر کیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت مہنگائی کے بے قابو جن کے ہاتھوں لاچار عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی میں عوام کے لیے اب نان شبینہ کا حصول بھی مشکل ہوگیا ہے۔ زندگی کی دیگر سہولیات اور آسائشیں عام آدمی کے لیے خواب بن چکی ہیں۔

یہ ملک میں معاشی ترقی اور اقتصادی استحکام لانے کے ان بلند بانگ دعوؤں کی نفی ہے جو ہمارے حکمران صبح شام دوہراتے رہتے ہیں۔ گزشتہ اڑھائی برسوں کے دوران مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتیں برسر اقتدار ہیں، ان کی جانب سے اس عرصے میں قوم کو مسلسل یہ نویدیں سنائی جاتی رہی ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے نکلنے کے بعد ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے۔ اس کے لیے حکومت کی جانب سے اسٹاک مارکیٹ میں تیزی اور کچھ دیگر میگا اشاریوں کے مثبت رجحان کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ یہ امر بلاشبہ قابل لحاظ ہے کہ موجودہ دور میں معاشی افراتفری کی وہ فضا ختم ہوچکی ہے جو اڑھائی سال قبل ملک میں سیاسی بحران اور کچھ خارجی عوامل کے باعث پیدا ہوئی تھی۔ فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد سیاسی منظرنامے میں قدرے استحکام کے باعث معیشت کو بھی کسی حد تک سنبھلنے کا موقع ملا، علاوہ ازیں پاکستان میں سیاسی اورعسکری قیادت کے ایک پیج پر ہونے اور معاشی اصلاحات اور ترقیاتی سرگرمیوں کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہونے کے تاثر نے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کو بھی بڑھوتری کے مواقع فراہم کردیے، پھر عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل کمی نے بھی پا کستان کے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد دی، ان تمام عوامل کے ہوتے ہوئے ملک میں معاشی ترقی کے بڑے اشاریوں کا مثبت رخ دکھانا یقینا ایک حوصلہ افزا امر ہے مگر ظاہر ہے کہ کسی ملک کی معاشی ترقی کا حقیقی پیمانہ صرف اسٹاک ایکسچینج کا گھٹتا بڑھتا گراف نہیں ہوتا بلکہ اس کا اصل اور حقیقی بیرومیٹر عام آدمی کا معیار زندگی ہوتا ہے جو بدقسمتی سے ہر گزرتے دن کے ساتھ گرتا ہی چلاجارہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہاں غریب، محنت کش طبقہ اور چھوٹے سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین مہنگائی کے ہاتھوں زندہ درگور ہوچکے ہیں۔ حکومت کے اعدادو شمار میں اس وقت مہنگائی حالیہ تاریخ کی پست ترین سطح پر آچکی ہے جبکہ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی اس وقت بھی بدترین مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ حکمران طبقہ اپنی عیاشیاں اور اللے تللے کم کرنے پر تو آمادہ نہیں بلکہ اپنی مراعات میں مسلسل اضافوں پر اضافے کیے جا رہا ہے جبکہ عوام کی پشت پر ہر دوسرے تیسرے ہفتے کسی نہ کسی ضرورت کی شے کی مہنگائی کا تازیانہ برسا دیا جاتا ہے۔ حالیہ چند مہینوں کے دوران عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں پست ترین سطح پر رہیں مگر ہمارے حکمرانوں نے تیل کی قیمت اڑھائی سو روپے فی لٹر سے کم نہیں ہونے دی، عوام کو مختلف لالی پاپ دیے گئے کہ فلاں فلاں شعبے میں متبادل ریلیف دیا جائے گا، بجلی کی قیمتوں میں جو ریلیف دیا گیا تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کے تناسب سے تو کم ہی تھا مگر بہرحال غنیمت تھا، تازہ رپورٹوں کے مطابق اب اس ریلیف کو بھی ختم کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ اطلاع درست ہے تو اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ لوگ حکومت سے نئے بجٹ میں مہنگائی سے خاطر خواہ ریلیف کی توقع لیے بیٹھے تھے، یہاں عوام کو مزید نچوڑنے کے لیے روز نئے منی بجٹ لائے جارہے ہیں۔

پھر المیہ یہ بھی ہے کہ حکومت کی جانب سے اگر کسی شے کی قیمت میں کمی بھی کی جاتی ہے تو اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ پاتا۔ آج بھی مارکیٹ میں بیشتر اشیاء صرف کی قیمتیں اسی سطح پر ہیں یا اس سے بھی بڑھ چکی ہیں جس سطح پر تیل کی قیمت اور ڈالر کے نرخ 300سے اوپر جانے پر تھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں پرائس کنٹرول کا کوئی سسٹم ہی موجود نہیں ہے یا پھر سسٹم خود کارٹیل مافیا سے ملا ہوا ہے۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نا انصافی ہے اورہمارے حکمرانوں کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا نہ ہوکر لوگ کسی دن پھر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سڑکوں پر نکل آئیں اور خدانخواستہ ملک میں بلاوجہ کا انتشار پھیل جائے۔ حکمران عوام کو مہنگائی سے کچھ ریلیف دینے پر توجہ دیں قبل اس کے کہ دیر ہو جائے۔