انصافی دوستوں کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز شریف، مریم نواز شریف ایسے کئی ناموں کا حوالہ دیکر موروثی سیاست کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے یہاں تک کہ سیاست میں موروثیت کو گالی بنا دیا گیا۔ جبکہ وقت آنے پر پی ٹی آئی نے موروثیت کی سیاست کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اسکی پذیرائی بھی کی۔ چاہے وہ عمران خان کی بہنیں ہوں یا پھر شاہ محمود قریشی کا بیٹا اور بیٹی، جماعتی عہدوں پر اور خیبر پختونخواہ حکومت میں سگے رشتے داروں کا براجمان ہونا، ایسی کئی اور مثالیں بھی موجود ہیں کہ پی ٹی آئی کی جانب سے اب موروثیت کے خلاف اتنی شدت سے بات نہیں کی جاتی۔ جوکہ بہت ہی اچھا شگون ہے۔ رہی سہی کسر، عمران خان کی اولاد کی ماہ اگست میں ہونے والی ممکنہ احتجاجی تحریک کو لیڈ کرنے کی خبر نے تحریک انصاف کی موروثی سیاست کے خلاف مسلسل چلائی گئی مہم کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دیا ہے۔
یہ بات یقینی ہے کہ اڈیالہ میں مقیم قیدی نمبر 804کو بھی احساس ہو چکا ہوگا کہ مشکل کی اس گھڑی میں پارٹی عہدے اور پارٹی ٹکٹ لیکر اسمبلیوں میں مزے لیتے افراد کی اکثریت خاموش تماشائی کا کردار کر رہی ہے، اگر عمران خان کے لئے صحیح معنوں میں کوئی سیاسی جدوجہد کر رہا ہے تو وہ صرف انکی بہنیں ہی ہیں۔ شاید قیدی نمبر 804کو یہ بھی احساس ہوچکا ہو کہ ماضی میں بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو صاحبہ، کلثوم نواز شریف صاحبہ اور مریم نواز صاحبہ ایسی خواتین کبھی بھی سڑکوں، جلسوں اور ریلیوں کی قیادت نہ کرتیں اگر ان کے خونی رشتے مشکلات کا شکار نہ ہوتے۔ تقریباً دو سال سے اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں ہو پا رہی اور نہ ہی ان کی جماعت کی جانب سے صحیح معنوں میں سیاسی اُمور کو سرانجام دیا جا رہا ہے۔ میری نظر میں عمران خان کے بیٹوں قاسم، سلیمان اور ان کی بیٹی ٹیریان کو بہت پہلے ہی بے نظیر بھٹو، مریم نواز کی طرح جارحانہ طرز سیاست کو اپناتے ہوئے میدان عمل میں آجانا چاہیے تھا۔
بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق، ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوگی کہ عمران خان کے بیٹے اور بیٹی اپنے والد محترم کی آزادی کے لئے عنقریب پاکستانی سڑکوں پر احتجاج کرتے دیکھائی دیں گے۔ یہ بہت ہی اچھا شگون ہوگا کہ اگر عمران خان کے بیٹے، بیٹی اور سابقہ بیوی جمائمہ بھی مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان آکر احتجاجی تحریک کی کمان سنبھالیں۔ یاد رہے ماضی میں محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ نے اپنے بھائی کا بھرپور ساتھ نبھایا اور قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک وملت کی خاطر سیاسی میدان میں ایوب خان کا بھرپور مقابلہ کیا۔ اسی طرح بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے اپنے شوہر اور بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اپنے والد محترم ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ نبھایا۔ کلثوم نواز صاحبہ نے اپنے خاوند اور مریم نواز صاحبہ نے اپنے والد محترم میاں محمد نواز شریف کا ساتھ نبھایا۔ اب امید ہے کہ قاسم اور سلیمان کے ساتھ ساتھ ٹیرن سیتا وائٹ خان صاحبہ بھی اپنے والد محترم عمران خان کا ساتھ نبھانے کے لئے پاکستان ضرور تشریف لائیں گے۔
جہاں ایک طرف عمران خان کے بیٹوں اوربیٹی کا پاکستان میں آکر عملی سیاست میں حصہ لینا نہ صرف عمران خان کی مشکلات میں کمی اور پی ٹی آئی کو مضبوط تر جماعت بنانے کا باعث بنے گا، وہیں پر عمران خان کی اولاد کی پاکستان آمد نے حکومتِ وقت کے ایوانوں میں بظاہر لرزا طاری کر دیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے حکومتِ وقت بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ آئے روز کسی نہ کسی حکومتی ترجمان کی جانب سے عمران خان کی اولاد کے خلاف بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت ان کی آمد سے خوفزدہ ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت وقت کو عمران خان کے برطانوی شہریت کے حامل بیٹوں اور امریکی شہریت کی حامل بیٹی کو فی الفور پاکستانی ویزے دینے چاہیں تاکہ ان کو بھی پاکستانی سیاست کے رموز کا پتا چل سکے۔ کہ مزاحمتی سیاست کسے کہتے ہیں اور احتجاجی ریلیوں اور جلسوں میں آنسو گیس کے ایکسپائر شیل کا مزہ کیسا ہوتا ہے۔ پولیس کی پھینٹی کیسی ہوتی ہے۔ پکڑے جانے پرحوالات اور جیل کی گرمی اور سہولیات کیسی ہوتی ہے اور اسی طرح انصاف کے حصول کے لیے کس طرح بکتربند گاڑیوں میں عدالتوں میں پیشیاں کروائی جاتی ہیں۔ شاید حکومت وقت کو عمران خان کی اولاد سے خطرہ ہے کہ اگر انہوں نے پاکستانی سیاست کا مزہ چکھ لیا تو ایوان اقتدار سے بے دخلی یقینی نہ ہوجائے۔ آخر میں حکومت وقت سے گزارش کروں گا کہ عمران خان کی اولاد کو پاکستان آنے سے مت روکیں۔