رپورٹ: علی ہلال
اسرائیلی میڈیا نے غزہ جنگ میں حصہ لینے والے صہیونی فوجی اہلکاروں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے اضافے کی تصدیق کردی۔ اسرائیلی جریدے ہارٹز نے فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ 2024ء کے اختتام تک غزہ پر جاری جنگ کے آغاز سے اب تک 35 اسرائیلی فوجیوں نے خودکشی کی ہے جو کہ فوجی ریڈیو کی جانب سے جنوری 2025ء کے آغاز میں دی گئی آخری رپورٹ کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔ اخبار کے مطابق اسرائیلی فوج نے رواں سال کے دوران خودکشی کرنے والے فوجیوں کی درست تعداد ظاہر کرنے سے انکار کیا ہے، تاہم ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 2025ء کے آغاز سے اب تک کم از کم 7 فوجیوں نے خودکشی کی جس کی بنیادی وجہ غزہ پر جنگ کا جاری رہنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے جنگ کے آغاز سے اب تک کئی ایسے فوجیوں کو دفن کیا ہے جنہوں نے خودکشی کی، لیکن ان کی آخری رسومات نہ تو فوجی اعزاز کے ساتھ ادا کی گئیں اور نہ ہی ان کے بارے میں سرکاری طور پر اعلان کیا گیا۔ جس پر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ جنگ کے دوران ہونے والے انسانی اور مادی و عسکری نقصانات چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی فوجی ریڈیو نے جنوری 2025ء کے آغاز میں بتایا تھا کہ غزہ کی جنگ کے آغاز سے اب تک 28 فوجیوں نے خودکشی کی، جن میں سے 16 ریزرو (ذخیرہ) فوجی تھے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج ایسے ریزرو فوجیوں کو بھی جنگ میں شامل کررہی ہے جو ذہنی صدمے یا نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہیں، حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جنہیں ان کی ذہنی حالت کی بنیاد پر پہلے فوج سے فارغ کیا جاچکا تھا۔ اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ فوجی نفری کی شدید کمی کے باعث نفسیاتی مسائل کے شکار افراد کو دوبارہ فوج میں شامل کیا جارہا ہے اور جنگ کے آغاز سے اب تک 9 ہزار سے زائد فوجی نفسیاتی علاج حاصل کررہے ہیں۔
اخبار نے ایک فوجی کمانڈر کے حوالے سے بتایا کہ وہ ایسے افراد کو بھی بھرتی کرنے پر مجبور ہیں جو ذہنی طور پر لڑنے کے قابل نہیں، کیونکہ بہت سے فوجی لڑنے سے انکار کررہے ہیں۔ کمانڈر نے بتایا کہ وہ نفسیاتی مریضوں کی حالت پر زیادہ چھان بین نہیں کرتے کیونکہ اگر ایسا کیا تو فوج کے پاس لڑنے والے سپاہی نہیں بچیں گے۔ اس کمانڈر کا کہنا تھا کہ ہزاروں ریزرو فوجی جو غزہ میں خدمات انجام دے چکے ہیں، جنگ کے بعد نفسیاتی مسائل کا شکار ہوکر دوبارہ فوج سے رجوع کررہے ہیں اور ان سب کے باوجود انہیں لڑائی میں شامل کیا جارہا ہے۔ اس کے مطابق: ’ہم اسی افرادی قوت کے ساتھ لڑرہے ہیں جو میسر ہے‘۔ اس سے قبل نومبر میں اسرائیلی اخبار یدیعوت احرونوت نے وزارت دفاع کے ری ہیبلیٹیشن (بحالی) دفتر کے حوالے سے بتایا تھا کہ اسرائیلی فوج کے تقریباً 5200 فوجی یا 43 فیصد زخمی افراد جو بحالی مراکز سے رجوع کرتے ہیں صدمے کے بعد ذہنی دباو کا شکار ہیں۔ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ 2030ء تک تقریباً 1 لاکھ افراد اس بیماری کا شکار ہوں گے جن میں سے نصف یا اس سے زیادہ کو پی ٹی ایس ڈی لاحق ہوگا۔
اسرائیلی اُمور پر نظر رکھنے والے عرب صحافی نے کل اپنی رپورٹ میں ایتھوپیا نژاد اسرائیلی فوج کی خاتون اہلکار کے بارے خبر دی ہے کہ اس کی لاش رفح سے جھلسی ہوئی حالت میں ملی ہے۔ اس نے وصیت کی تھی کہ اسے اسرائیل میں نہ دفنایا جائے۔ اس کی باقیات کو ایتھوپیا لے جایا جائے۔ ایسے متعدد فوجی اہلکاروں کے وصیت نامے سامنے آئے ہیں۔ اطالوی ویب سائٹ ’انسائداوور‘ کی ایک رپورٹ میں اسرائیلی فوجیوں کی غزہ اور لبنان میں جنگ کے بعد پیدا ہونے والی گہری نفسیاتی اذیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خودکشیوں میں اضافے کا رجحان اُس تباہ کن صورتِ حال کی نشاندہی کرتا ہے جسے اسرائیلی حکام سرکاری طور پر نظرانداز کررہے ہیں۔ رپورٹ کے مصنف آندریا امبریلو نے لکھا کہ دانیئل اِدری نامی ریزرو فوجی جس نے غزہ اور لبنان میں خدمات انجام دیں، صفد شہر کے قریب خود کو آگ لگا کر خودکشی کر بیٹھا۔ جنگ کے دوران جلتے جسموں کی وہ خوفناک یادیں جنہیں وہ بھلانے سے قاصر رہا، اس کی ذہنی کیفیت پر بری طرح چھا گئی تھیں اور وہ ایک ”جلاد“ سے ”شکار“ بن گیا۔
مصنف نے لکھا کہ دانیئل کی خودسوزی کی آگ نے نہ صرف اس کی ذاتی اذیت کا اختتام کیا بلکہ ان تمام جنگی جوازوں اور ریاستی مفادات کو بھی جلا کر رکھ دیا جنہوں نے نوجوانوں کو قاتل مشینوں میں تبدیل کردیا ہے۔ لیکن جنگ کے بعد انہیں انہی کے پیداکردہ تشدد کے بھوتوں کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا گیاہے جس نے بالآخر انہیں تباہ کردیاہے۔ دانیئل کی والدہ نے اسرائیلی میڈیا کو بتایا کہ فوجی سروس کے بعد اس کے بیٹے کی اندرونی اذیت اسے دیمک کی طرح کھا رہی تھی۔ غزہ اور لبنان کے میدانِ جنگ سے وابستہ مناظر، جلی ہوئی لاشوں کی بدبو اور ہلاک شدگان کی تصویریں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی تھیں۔
دانیئل نے خودکشی سے پہلے کے دنوں میں بار بار اس بات کا اظہار کیا تھا کہ اسے نفسیاتی علاج کے لیے اسپتال میں داخلے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ وہ نیند سے محروم تھا اور جنگی یادیں اس پر غالب آچکی تھیں، لیکن اسپتال سے صرف یہی جواب ملا کہ طویل انتظار درکار ہے۔ مصنف نے مزید بتایا کہ دانیئل اپنے والد سے محروم تھا اور اپنی زندگی کا مطلب تلاش کرنے کے لیے اس نے فوجی خدمت اختیار کی، خاص طور پر اس وقت جب اس کے دو قریبی دوست 7 اکتوبر 2023ء کو مارے گئے۔ اس واقعے کے بعد اس نے دلیری، وفاداری اور مایوسی کے امتزاج کے ساتھ خود کو بطور ریزرو فوجی پیش کیا۔ نومبر 2023ء سے نومبر 2024ء کے درمیان دانیئل کی ذمہ داری اپنے ہلاک ہونے والے ساتھیوں کی لاشوں کو منتقل کرنا تھی اور یہ ذمہ داری اس کے لیے مستقل اذیت کا باعث بنی۔ رپورٹ کے مطابق اس نے اپنے ایک ساتھی کو پیغام میں لکھا ”بھائی، میرا دماغ تباہ ہورہا ہے۔ میں ایک خطرہ بن چکا ہوں، ایک بم ہوں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔“
یہ رپورٹ اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ اسرائیلی فوجی نہ صرف جسمانی بلکہ گہری ذہنی و جذباتی تباہی کا شکار ہورہے ہیں جسے اسرائیلی ریاست سنجیدگی سے لینے سے قاصر یا غیرمائل نظر آتی ہے۔
