اطلاعات کے مطابق کوئٹہ سے لاہور جانے والی ایک مسافر بس پر فتنہ ٔ ہندوستان کے دہشت گردوں نے وحشیانہ طورپر حملہ کرکے نو بے گناہ پاکستانیوں کو اغوا کرکے شہید کر دیا۔ اس سے قبل باجوڑ میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما مولانا خانزیب دو ساتھیوںسمیت مبینہ طورپر فتنہ ٔ خوارج کے ناپاک ہاتھوں شہید کیے گئے۔ دہشت گردوں کی جانب سے شہریوں کے قتل کے یہ واقعات دراصل پاکستان کے خلاف جاری ایک گہری اور خطرناک پراکسی جنگ کا ایک اور المناک ثبوت ہیں۔ گزشتہ روز ہی منعقد ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ بھارت کی حمایت یافتہ اور اسپانسرڈ پراکسیز کے خلاف ہر سطح پر فیصلہ کن اور جامع کارروائیاں ناگزیر ہیں۔ کور کمانڈر کانفرنس میں یہ بات بھی اجاگر ہوئی کہ پہلگام واقعے کی آڑ میں پاکستان پرحملے کی کوشش اور واضح شکست کے بعد بھارت اب فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کی پراکسیز کی مدد سے اپنا مذموم ایجنڈا مزید آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، جس کا مقصد خطے میں”بنیادی سیکورٹی فراہم کنندہ” کا خود ساختہ کردار پیش کرنا ہے۔ بلوچستان میں مسافروں کی شہادت سے کور کمانڈر کانفرنس میں پیش کردہ بیانیے کی تائید ہی ہوتی ہے۔
کور کمانڈر کانفرنس میں بھارت کے خود ساختہ طورپر بنیادی تحفظ فراہم کرنے والے ملک کے گمراہ کن کردار پر قرار واقعی تنقید کی گئی ہے کیوں کہ اس قسم کے سفارتی پروپیگنڈے کی آڑ میںبھارت دراصل عالمی امن کے لیے اسرائیل ہی کی مانند ایک خطرناک ملک بن چکاہے جس کی سرگرمیوں پر قابو پانا عالمی امن اور بالخصوص مسلم امہ کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ عالمی سطح پر بھارت کے اس خود ساختہ کردار کو مزید بے نقاب کرنے کیلئے حکومت اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو مشترکہ طورپر عالمی سفارتی آگاہی مہم پر توجہ دینا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کے مذموم کردار کو عالمی سطح پر عمدہ طریقے سے اجاگر کیاہے۔ اس قسم کی کوششوں میں اضافہ ہوناچاہیے۔ عالم اسلام کے اہم ممالک بالخصوص عرب ریاستوں، ترکیہ، ملائیشیا اور ایران میں بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ اور اس کی زیر زمین سازشوں کو طشت از بام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل قریب میں ممکنہ طورپر وقوع پزیر ہونے والے پاک بھارت تصادم کے موقع پر تمام عالم اسلام پاکستان کے شانہ بشانہ دکھائی دے۔ بھارت خطے میں دہشت گردی کو فروغ دے کر خود ساختہ چوہدری بننا چاہتاہے لیکن پاکستان اس کے ناپاک عزائم کی راہ میں آہنی دیوار کا درجہ رکھتاہے۔ بھارت اس دیوار کو کھوکھلا کرنے کے درپے ہے۔ پاکستان کیخلا ف گوریلا جنگ کی پشت پناہی بھارت کے اسی کردار کا ایک حصہ ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ گوریلا جنگ، جس کے حالیہ مرحلے میں میں نہتے شہریوں کو ان کی پنجابی شناخت کی بنا پر بسوں سے اتار کر شہید کیا جا رہا ہے، محض دہشت گردی نہیں بلکہ پاکستان کی نظریاتی اساس، دینی اقدار اور سماجی ہم آہنگی پر کاری ضرب ہے۔ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہوں کا مقصد لسانی اور نسلی تفریق کو ہوا دے کر خانہ جنگی کی آگ بھڑکانا ہے۔ بی ایل اے اب میدان جنگ میں شکست کھا کر نہتے شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور ایرانی سرحد کی بندش نے دہشت گردی کا رُخ اندرونِ بلوچستان موڑ دیا ہے کیونکہ یہ غیر رسمی راستے بی ایل اے کے لیے ”آکسیجن لائن” کا کام کرتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق بی ایل اے نے دو ایسے بھائیوں کو بھی قتل کیا ہے جو اپنے والد کے جنازے پر جا رہے تھے، جو اس تنظیم کی درندگی کا واضح ثبوت ہے۔ یہاں یہ سوالات بھی سراٹھاتے ہیں کہ بلوچستان جیسے وسیع اور حساس صوبے میں جہاں سیکورٹی فورسز کی بے مثال قربانیاں ہیں، ایسے واقعات کی روک تھام کیوں مشکل ہو رہی ہے؟ کیا جعفر ایکسپریس کے اغوا جیسے المناک واقعات سے سبق حاصل نہیں کیا گیا؟ کیا وسائل کی کمی ہے یا محکموں کے اندر ایسے سہولت کار موجود ہیں جو دہشت گردوں کو اطلاعات فراہم کرتے ہیں؟ یہ وہ تلخ سوالات ہیں جن کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں اپنی کمزوریوں پر توجہ دینا ہوگی۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس حملے کو ”فتنہ الہندوستان کے دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائی” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست ان بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردوں اور ان کے مقامی آلہ کاروں کا ہر جگہ پیچھا کرے گی اور انہیں انجام تک پہنچائے گی۔ یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ جہاں ایک طرف ہماری بہادر افواج”فتنہ ہندوستان” اور”فتنہ خوارج” کے خلاف مسلسل برسرپیکار ہیں، وہیں دوسری طرف، ان دہشت گرد گروہوں کو افغان سرزمین سے مسلسل پشت پناہی مل رہی ہے۔ ان گروہوں کو امریکی ہتھیاروں کی فراہمی، جدید ٹیکنالوجی کی دستیابی اور مقامی سہولت کاروں کی حمایت پاکستان کی بقا کی خاطر جاری جنگ میں نئے مراحل کی نشان دہی کرتی ہے۔ دہشت گرد اب ڈرون کیمروں جیسے جدید آلات استعمال کر رہے ہیں، لہٰذا ہماری فورسز کو بھی جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس کرنا اور ان کی تربیت کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا از حد ضروری ہے۔
پاکستان کے لیے یہ جنگ محض زمینی سرحدوں کی حفاظت کا مسئلہ نہیں، بلکہ نظریہ، عزت، امن، اور آئندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کی جنگ ہے۔ یہ بقا کی جنگ ہے جس میں فتح یا شہادت کی راہ اختیار کیے بغیر چارہ نہیں۔ ریاست کو اب مزید فیصلہ کن اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ بعض ماہرین کی رائے ہے کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کی پشت پناہی کے پیشِ نظر تمام تجارتی اور سفارتی تعلقات کا از سر نو جائزہ لینا ضروری ہے۔ بغیر کسی ابہام کے، دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی پر زور دیا جائے۔ مغربی سرحد کو مکمل طور پر سیل کیا جائے اور چوکیاں بڑھائی جائیں تاکہ غیر رسمی راستوں سے دراندازی اور بھتہ خوری کا خاتمہ ہو سکے۔ ریاستی اداروں کے اندر موجود کسی بھی سہولت کار کے خلاف بے رحم احتساب ضروری ہے۔ قوم کو دشمن کی سازشوں سے آگاہ کیا جائے اور ایک یکجان قومی بیانیہ تشکیل دیا جائے جو لسانی اور نسلی تفرقات کو مسترد کرے۔ عوام کا کردار بھی اس جنگ میں کلیدی ہے۔ انھیں ریاستی اداروں پر مکمل اعتماد رکھنا چاہیے اور دشمن کے جھوٹے پروپیگنڈے کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی غلط معلومات کا مقابلہ حقائق سے کرنا اور ہر قسم کے شر و فساد کو مسترد کرتے ہوئے، افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا وقت کی ضرورت ہے۔