ملک کا موجودہ منظر نامہ اور اصلاح احوال کی ضرورت

اعداد وشمار پر مشتمل مختلف رپورٹوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال بظاہر کچھ مثبت اشاریے دکھا رہی ہے۔ خبر ناموں میں بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے، افراط زر کی شرح تاریخی کم ترین سطح پر آ گئی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی ہے، اور آئی ٹی و ٹیلی کام کے شعبے میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں ارباب حکومت کا دعویٰ ہے کہ سخت مالی فیصلوں نے معیشت کو استحکام بخشا ہے۔ دوسری طرف مختلف ممالک مثال کے طورپر گزشتہ روز ہی آذربائیجان جیسے دوست ممالک سے ہونے والے بیرونی سرمایہ کاری کے معاہدے بھی اس دعوے کو تقویت دیتے ہیں۔ اس سب کے باوجود اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کے پیچھے یہ تلخ حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ ملک پر قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ عام آدمی بدستور مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے ۔ یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم محض اعداد و شمار پر انحصار نہ کریں بلکہ ایک جامع نظریاتی اور عملی حکمت عملی اپنائیں۔

اہلِ علم اس امر سے باخبر ہیں کہ موجودہ عالمی معاشی نظام اپنی بنیاد میں سودی معیشت، سرمائے کی بے لگام گردش، اور اسٹاک و بانڈز جیسی مالیاتی مصنوعات پر استوار ہے۔ اس نظام میں معاشی ترقی کو محض مالیاتی منافع اور سرمایہ کاری کی سطح سے ناپا جاتا ہے۔ یعنی اگر اسٹاک مارکیٹ اوپر جا رہی ہے اور بیرونی سرمایہ کاری آ رہی ہے تو اسے ”ترقی” سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جدید معاشیات کا نظریہ اس تعریف سے آگے بڑھ چکا ہے۔ آج کی دنیا میں ایک ”کامیاب معیشت” کی تعریف محض مالیاتی منافع تک محدود نہیں بلکہ اس میں معاشرتی مساوات، پائیداری، مالیاتی شمولیت اور سب سے بڑھ کر انسانی ترقی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم دینِ اسلام اس معاشی ترقی کو بھی انسانی فلاح و نجات اور کامیابی قرار نہیں دیتا بلکہ وہ اس سے اگلے درجے کی بات کرتا ہے۔ بعض حلقوں کے مطابق پاکستان میں اسٹاک مارکیٹ کی حالیہ ترقی اور آئی ٹی و ٹیلی کام کے شعبے میں کامیابیاں یقیناً قابلِ تحسین ہیں، مگر جب ان کامیابیوں کے ثمرات ایک عام شہری کی روزمرہ زندگی میں نظر نہ آئیں، جب اسے بنیادی ضروریات زندگی کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہو، تو ایسی ترقی سطحی اور بے معنی لگتی ہے۔ اس وقت ملک کا ایک بڑا طبقہ بجلی، پٹرول اور گیس کی ہوشربا قیمتوں، بڑھتے ہوئے ٹیکسوں اور بے روزگاری کے ہاتھوں پریشان ہے۔ ہمارے ملک کا ٹیکس وصولی کا نظام بھی ناانصافی کی علامت بن چکا ہے، جہاں تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ بوجھ برداشت کر رہا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں تنخواہ دار طبقے نے برآمد کنندگان اور ریٹیلرز کی مجموعی ادائیگی سے دو گنا زیادہ ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرایا ہے، جبکہ تاجر دوست اسکیم جیسے اقدامات عملی طور پر ناکام رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جاگیردار اور مراعات یافتہ طبقہ اس بوجھ سے آزاد ہے اور انہیں مزید شاہانہ مراعات سے نوازا جا رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت اس وقت قرض کے بھاری بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، صرف ایک سال (جون 2024سے مئی 2025) کے دوران وفاقی حکومت کے قرضوں میں 8,312ارب روپے کا ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ مئی 2025تک وفاقی حکومت کے قرضوں کا حجم 76ہزار 45ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، جس میں مقامی اور بیرونی دونوں طرح کے قرضے شامل ہیں۔

یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے اور اس سے پائیدار معاشی ترقی کی امیدیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ اسلامی اقتصادی فکر میں سود پر مبنی قرض کو ایک غیر منصفانہ اور ظالمانہ نظام قرار دیا گیا ہے جو معاشی غلامی کو فروغ دیتا ہے۔ اسلام معیشت کی بنیاد عدل، انفاق، کفایت، نفع بخش تجارت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر رکھتا ہے، نہ کہ سود اور قرض پر۔ بعض جدید مفکرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام، دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز کر کے سماجی تفاوت کو بے تحاشا بڑھا رہا ہے۔ پاکستان میں جاگیرداروں اور سیاسی تاجروں کو حاصل ٹیکس چھوٹ اور عام عوام پر بڑھتے بوجھ کی مثال اس نظام کی کھلی ناکامی کا ثبوت ہے۔ ان باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ محض بیرونی سرمایہ کاری اور اسٹاک مارکیٹ کے اشاریے حقیقی ترقی کا پیمانہ نہیں ہو سکتے جب تک کہ قرضوں کا جال کم نہ کیا جائے اور معاشی انصاف قائم نہ ہو۔ ہمارا عدالتی نظام غیر مؤثر ہے، ادارے زوال پذیر ہیں جہاںکرپشن کا ناسور جڑ پکڑ چکا ہے۔ امن و امان کی حالت، خاص طور پر بلوچستان،خیبر پختونخوا ،ا ندرون سندھ اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں تشویشناک ہے۔ ہمارا تعلیم و تربیت کا نظام بھی توجہ کا طلبگار ہے۔ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام ایسے افراد پیدا کر رہا ہے جو محض نفس پرست، حرص و ہوس کے غلام اور دنیوی مناصب کے پیچھے بھاگنے والے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسے افراد تیار کیے جائیں جو خلوص نیت اور حب الوطنی کے سچے جذبے کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کو اپنا مقصد حیات سمجھیں۔ جاگیردارانہ نظا م اور طبقاتی تقسیم کے خلاف اصلاحات، وسائل کی منصفانہ تقسیم، اور قانون کی بالا دستی کے بغیر یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

ملک کی ترقی کا انحصار محض بیرونی سرمایہ کاری، اسٹاک مارکیٹ کی تیزی، یا مالیاتی اشاریوں پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ ریاست اپنے فیصلوں میں کس حد تک عوامی فلاح، انصاف، عدل اور ایمانداری کو مقدم رکھتی ہے۔ قرآن کریم کی روشن تعلیمات کی روشنی میں، اس بحران سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ نیتوں کی درستی کی جائے، اللہ رب العزت پر مکمل یقین رکھا جائے، اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی معیشت، تعلیم، اور عدالتی نظام میں بنیادی اصلاحات کی جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سود سے پاک مالی نظام قائم کریں، ٹیکس نظام کو منصفانہ بنیادوں پر استوار کریں جہاں ہر طبقہ اپنی آمدن کے مطابق ٹیکس ادا کرے، تعلیم میں محض ڈگریوں کے حصول کی بجائے اخلاقیات اور تربیت پر زور دیں، کرپشن کے خلاف مؤثر اور بلاامتیاز اقدامات کریں، اور تمام ریاستی اداروں میں شفافیت کو یقینی بنائیں۔ اگر یہ اصلاحات خلوص نیت اور عملی حکمت عملی کے ساتھ کی جائیں تو پاکستان نہ صرف معاشی بحران سے نکل سکتا ہے بلکہ ایک مثالی اور اخلاقی قیادت کی جانب بھی گامزن ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقی ترقی تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے شہریوں کو امن، تحفظ اور انصاف فراہم کر سکیں اور ان کی بنیادی ضروریات کو سہولت کے ساتھ پورا کر سکیں۔