دہشت گردی کا قلع قمع کرنا ناگزیر ہے

شمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی میں دہشت گردوں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملے میں 13 سپاہیوں کی شہادت، قوم کے لیے گہرے دکھ اور المیے کا لمحہ ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے فورسز کے قافلے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، مگر قافلے کے آگے موجود مستعد دستے نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر دشمن کے حملے کو ناکام بنا دیا، جس کے بعد ایک اور حملہ کیا گیا۔

اس افسوسناک سانحے نے قوم کے دلوں کو شدید گھائل کیا ہے، یہ ہمارے بہادر فوجی جوانوں پر حملہ نہیں، بلکہ قوم کے دل پر بزدلانہ حملہ ہے۔ یہ وہ سپاہی تھے جو اپنی سرزمین وطن پر اپنی قوم کے تحفظ کیلئے موجود تھے، انہوں نے کسی دوسرے ملک پر حملہ کیا تھا اور نہ ہی اپنی سرحدوں سے باہر قدم رکھے تھے، جبکہ یہ طے ہے کہ انہیں چوری چھپے، بھیس بدل کر گھر میں گھس کر نشانہ بنانے والے خارجی دہشت گرد پڑوسی ملک میں موجود اپنے محفوظ ٹھکانوں سے تیار ہو کر آئے تھے۔ اس خارجی گروہ کو یہ حوصلہ، ہمت، تعاون اور مدد انہی محفوظ ٹھکانوں سے ہی ملتی ہے، جو پاک سرزمین سے باہر موجود ہیں۔ پڑوسی ملک کے ساتھ پاکستان کی سرحد خاصی طویل ہے، جس کو پوری طرح کور کرنا ناممکن ہے۔ صرف پاکستان کی بات نہیں، اتنی بڑی سرحد کو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتور ریاست بھی مکمل طور پر کنٹرول نہیں کرسکتی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ امریکا جو دنیا کا سپرپاور ہے، اس کی میکسیکو کے ساتھ سرحد آج بھی اس کیلئے بڑی پریشانی کا باعث ہے، چنانچہ اتنی بڑی سرحد کو صرف اور صرف پڑوسی ملک کے تعاون اور مدد سے ہی پر امن رکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان بھی یہی چاہتا ہے، مگر بد قسمتی سے پڑوسی ملک کی نئی عبوری حکومت پاکستان کا مقدمہ سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کر رہی۔ پاکستان جب بھی ان حملوں کے سہولت کاروں اور ان دہشت گردوں کے سرحد پار محفوظ ٹھکانوں کی بات کرتا ہے، عبوری افغان حکومت کی طرف سے بات کو سنجیدہ لینے کی بجائے ٹالنے کیلئے ثبوت فراہم کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس اپنے دعوے کے حق میں کوئی ثبوت اور دلیل موجود نہیں، پاکستان مکمل ثبوتوں کے ساتھ بارہا افغان عبوری حکومت کے حکام کو باور کراچکا ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے ان کے ملک میں کہاں کہاں واقع ہیں اور انہیں کون کیسے آپریٹ کرتا ہے، مگر بجائے ان ثبوتوں کو تسلیم کرکے پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کے، ایک بار پھر ثبوت دینے کا آموختہ دہرا دیا جاتا ہے، جس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ پڑوسی ملک کی عبوری انتظامیہ پاکستان کے ساتھ پر امن تعلقات کے قیام میں کسی طرح بھی سنجیدہ نہیں ہے۔

یہ حملہ کوئی انفرادی کارروائی نہیں، بلکہ ایک منظم اور بین الاقوامی سرپرستی میں پلنے والے گروہ کی کارستانی ہے۔ آئی ایس پی آر نے واضح کیا ہے کہ یہ حملہ فتنہ خوارج نے کیا، جو بھارت کا آلہ کار گروہ ہے، جس کا مقصد پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دے کر اس کا امن و استحکام تباہ کرنا ہے اور یہ گروہ پڑوسی ملک سے ہی آپریٹ ہو تا ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد عمومی توقع یہی تھی کہ خطے میں بالعموم اور پاکستان کی مغربی سرحد پر بالخصوص امن قائم ہوگا۔ یہ امید باندھی گئی تھی کہ پانچ دہائیوں سے خونین جنگوں، مار دھاڑ اور قتل و خون کا شکار افغانستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے گا اور پاکستان کو بھی اپنی مغربی سرحد پر سکون نصیب ہوگا، مگر بدقسمتی سے یہ امیدیں حقیقت کا روپ نہ دھار سکیں اور اس کے برعکس یہ سامنے آیا کہ دین کے نام پر قتل و غارت کا عادی ایک گروہ کسی صورت نچنت بیٹھنے پر آمادہ نہیں اور وہ ہر قیمت پر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنا چاہتا ہے۔ طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان نے خوش دلی سے نئی افغان حکومت کا خیر مقدم کیا۔ تمام تر تحفظات کے باوجود افغان سرزمین کے احترام میں ہر ممکن تعاون فراہم کیا گیا مگر ان کی جانب سے جو رویہ سامنے آیا، وہ نہایت باعث افسوس ہے۔

فتنہ خوارج کا افغانستان میں کھلے عام بیس کیمپ بنانا اور وہاں سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنا منظم ریاستی چشم پوشی کا ہی نتیجہ ہے۔ یہ واضح ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال ہونا اقوام متحدہ کے منشور، بین الاقوامی قانون اور بالخصوص دوحہ معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کا موقف سب کے سامنے ہے کہ افغان سرزمین سے دہشت گردوں کو پناہ اور مدد فراہم کی جا رہی ہے۔یہ امر بھی اہم ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کیخلاف عوام اور ریاست یک زبان اور متحد ہیں۔ ہماری فورسز نے پچھلے دو دہائیوں میں بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ امن کی ہی خاطر قبائلی عوام نے بھی بے شمار اذیتیں سہی ہیں۔ پاکستان کی طرف سے اب تک جو صبر، تحمل، اور حکمت کا مظاہرہ کیا گیا، وہ کسی کمزوری کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک ذمہ دار ریاست کے شایان شان رویہ ہے۔ ہم افغانستان کے امن کو اپنا امن سمجھتے ہیں، مگر افغان حکومت نے اپنی ذمہ داری ادا نہ کی، تو پھر پاکستان کو اپنے دفاع کیلئے ہر ممکن اقدام کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

میرعلی کا یہ اندوہناک سانحہ اس بات کا متقاضی ہے کہ عوام اور ریاستی ادارے ایک نئے عزم کے ساتھ دہشت گردی کیخلاف منظم صف بندی کریں۔ وقت آگیا ہے کہ اس معاملے کو سنجیدہ توجہ دی جائے۔ ایک بار پھر سیاسی اور سفارتی راستے اختیار کرکے افغان حکومت سے بات کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ امن، استحکام اور خوشحالی ان کی بھی ضرورت ہے اور خوشحالی اس ماحول میں نہیں آسکتی کہ افغانستان سے دہشت گرد پاکستان میں آزادانہ دراندازی جاری رکھیں۔ افغانستان میں ایسے عناصر کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، جو پاکستان کو مسلسل دھمکیاں اور گالیاں دیتے ہیں اور پاکستان کیخلاف مسلسل نفرت کا زہر پھیلا رہے ہیں، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو پاکستانی جڑیں رکھتے ہیں اور یہاں سے بھاگے ہوئے ہیں۔ یہ عناصر کھلے بندوں اپنے عزائم کا اظہار کرنے کیلئے جب آزاد ہیں تو خفیہ طور پر عملاً پاکستان کو نقصان پہنچانے کی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہوں گے، لہٰذا افغان حکومت کو انہیں کنٹرول کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی عوام الناس، میڈیا، مذہبی قیادت اور تمام طبقات کو ریاستی اداروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا ہوگا، تاکہ ہم یکسوئی کے ساتھ دہشت گردی کا قلع قمع کرکے وطن عزیز کو امن و استحکام کا گہوارہ بنا سکیں۔