وقت کی پابندی وہ ٹھوس حقیقت ہے جسے اپناکر زندگی کے تمام شعبوں میں فتح یابی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ وقت کی پابندی کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بناکر انسان بلند ترین اہداف حاصل کرلیتا ہے۔ انتہائی اہم امور میں بھی زبردست کامیابی سے سرفراز ہو جاتا ہے۔
یہ دنیا دو اور دو چار کے اصولوں کے مطابق چل رہی ہے۔ دنیا کا یہ سارا نظام اللہ کے مقررہ کردہ اصولوں کے مطابق رواں دواں ہے۔ فطرت اس بات کی مظہر ہے کہ یہا ں ہر کام متعین وقت پر انجام پاتا ہے۔ سورج ہر روز خاص وقت پر طلوع ہوتا ہے۔ اس کے غروب ہونے کے لمحات بھی طے شدہ ہیں۔ سال بھر کے تمام موسم خاص مہینوں میں ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ہر روز رات اور دن کے قائم ہونے کے اوقات مخصوص ہیں۔ کائنات کا حسن و جمال اور اس کی سلامتی تمام فطری امور کے وقوع پذیر ہونے میں مضمر ہے۔ ہمارا مذہب دینِ اسلام ہمیں ہر آن وقت کی پابندی کا درس دیتا ہے۔گزشتہ دنوں اسی موضوع پر ایک تعلیمی ادارے میں لیکچر تھا کہ طلبہ و طالبات اپنے وقت کی پابندی کس طرح کریں؟ ہم نے انہیں بتایا کہ وقت کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک حیثیت مذہبی ہے، جبکہ دوسری حیثیت معاشرتی ہے۔ ہر دو اعتبار سے وقت کی بڑی قدر و قیمت ہے۔
اگر مذہبی اعتبار سے دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بے شمار لوگ دھوکے میں ہیں۔ا یک نعمت صحت ہے اور دوسری نعمت وقت ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنے وقت کا صحیح اور مفید استعمال نہ کرکے خسارے میں پڑے ہوئے ہیں۔ وقت اور فراغت دو دھاری تلوار ہے۔ اگر تم نے اسے نہ کاٹا تو وہ تمہیں کاٹ لے گا۔”
اب آجائیں معاشرتی پہلو کی طرف! معاشرے میں بھی اس شخص کو پسند کیا جاتا ہے جو اپنا قیمتی ترین وقت ضائع نہیں کرتا۔ آپ مشرق سے مغرب تک بنظر غائر دیکھ لیں، وہی لوگ کامیاب نظر آئیں گے جنہوں نے وقت کی قدر کی۔ جنہوں نے وقت کا درست اور صحیح استعمال کیا۔بل گیٹس کا کہنا ہے: ”جو شخص وقت کی قدر نہیں کرے گا وقت اسے ضائع کر دے گا۔ وہ اندھیروں میں چلا جائے گا۔” اگر ہم دنیا بھر کے کامیاب افراد کی رودادیں اور داستانیں پڑھیں تو ہمیں معلوم ہوگا نہ وہی لوگ کامیاب ہیں جنہوں نے ایک ایک لمحے کی قدر کی۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر وقت اسی فکر میں رہے کہ میرا کوئی وقت ضائع نہ ہوجائے۔
ایک تحقیق کے مطابق اگر انسان 65سے 70سال زندگی گزارے تو 27سال سوکر ہی گزار دیتا ہے۔” گویا اپنی زندگی بڑھانے کا ایک قیمتی نسخہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنی نیند کم کر لے۔ اسی طرح ایک اور تحقیق ہے کہ 65سالوں میں 7سال انتظار میں گزار دیتا ہے، لہٰذا کامیاب افراد اس انتظار کے وقت کو بھی کام میں لاتے ہیں۔
اسی حوالے سے ایک حکایت ہے کہ ایک جانور کسی درخت سے اپنی ڈاڑھ تیز کر رہا تھا۔ ایک لومڑی کا وہاں سے گزر ہوا۔ اس نے کہا: ”تمہارا تو کوئی دشمن نہیں تو پھر تم کس لیے اپنی ڈاڑھ تیز کر رہے ہو؟” اس نے جواب دیا: ”تیری بات درست ہے، لیکن چونکہ ابھی فرصت کے لمحات ہیں، اس لیے اپنے ہتھیار تیز کر رہا ہوں، کیونکہ جب دشمن سے لڑائی کا وقت آئے گا تو اتنی فرصت کہاں ملے گی، وقت بچانے کے لیے ابھی سے اپنے ہتھیار تیز کر رہا ہوں۔” حکایت دراصل ”حکمت” بتانے کے لیے بیان کی جاتی ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ جو وقت انسان کو ملا ہے، اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کام میں لائے، کیونکہ ”گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔” آپ بھی اپنا وقت قیمتی بنانے کی سعی کرتے رہیں۔ ایک نہ ایک دن کامیاب ترین افراد کی فہرست میں آپ کا نام بھی آ ہی جائے گا۔”
میں اسی موضوع پر ایک جگہ لیکچر دے رہا تھا۔ میرا لیکچر ختم ہوا تو ایک نوجوان نے اٹھ کر سوال کیا:
”سر! ہم کیا کریں؟ ہمارے پاس تو کرنے کے لیے کوئی کام ہی نہیں ہے۔ ہمارے پاس تو وقت ہی وقت ہے، اسے کہاں خرچ کریں؟ کچھ سمجھ نہیں آرہا۔”
نوجوان کا سوال درست اور اکثر نوجوانوں کی ترجمانی پر مشتمل تھا۔ آج کل اکثر نوجوانوں کے پاس وقت بہت ہے۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ کیا کریں؟” ان کے پاس مصروفیت ہی نہیں ہوتی ہے۔ کرنے کو کوئی ڈھنگ کا کام ہی نہیں ہوتا ہے۔ آج کے 70فیصد نوجوانوں کا یہی مسئلہ ہے کہ ان کے پاس کرنے، بولنے کو، لکھنے کو، کہنے کو کچھ نہیں ہوتا ہے، لہٰذا نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ان فارغ اوقات میں اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کریں۔
ہم نے اس نوجوان سے پوچھا: ”آپ کے والد صاحب کیا کام کرتے ہیں؟”
انہوں نے جواب دیا: ”سر! میرے والد صاحب درزی ہیں۔ کپڑے سلائی کرتے ہیں۔”
ہم نے کہا: ”آپ اسکول سے آکر اپنے والد محترم سے درزی کا فن کیوں نہیں سیکھ لیتے؟” اسکول سے واپس آنے کے بعد شام کے وقت میں کسی کمپیوٹر سینٹر میں جاکر کمپوزنگ، ڈیزائننگ اور ایڈیٹنگ وغیرہ سیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح اسکول سے آکر ظہر کے بعد کسی دکان پر جاکر ”سیل مین” بن سکتے ہیں۔ شام کے وقت میں کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔ اسکول سے واپس آکر اپنی علمی، فنی اور دیگر مہارتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ اسکول سے واپس آکر اپنے سے چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھا سکتے ہیں۔ کسی معلوماتی کتاب کا مطالعہ کرکے اپنا علم بڑھا سکتے ہیں۔ اگر روزانہ صرف سو صفحے کا مطالعہ کریں تو ایک سال میں 36500صفحات کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے جو شخص 46500صفحات مطالعہ کر چکا ہو، اسے بولنا اور لکھنا نہیں آئے گا۔ یقینا آئے گا۔ اگر آپ روزانہ ایک صفحہ لکھیں تو ایک سال میں 365صفحات لکھ سکتے ہیں، اور جو شخص ایک سال میں 365صفحات لکھ لے وہ رائٹر بن سکتا ہے۔اس طرح کے بیسیوں کام ہیں جو آپ اسکول سے واپس آکر کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کچھ کرنا چاہیں تو کام ہی کام ہیں اور اگر نہ کرنا چاہیں تو کوئی کام بھی نہیں ہے۔ اب آپ فیصلہ کرلیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ ہر انسان کو ایک جیسا وقت ہی ملتا ہے۔ سب کے پاس 24گھنٹے ہی ہوتے ہیں۔ کوئی اس کو صحیح استعمال کرکے کامیاب ہو جاتا ہے تو کوئی اپنے قیمتی وقت ضائع کرنے کی وجہ سے ناکام ہو جاتا ہے۔ وقت بڑا وفادار ہے، یہ اپنی قدر کرنے والوں کو عروج بخشتا ہے اور اپنی بے قدری کرنے والوں کو گمنامی کھائی میں گرا دیتا ہے۔
اس لیے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ وقت کی قدر کریں، محنت کریں، مستقل مزاج کے ساتھ جدوجہد جاری رکھیں تو کامیابی ان کے قدم چومے گی۔