سانحۂ سوات۔ غفلت و لاپرواہی کا شاخسانہ

ملک میں مون سون کی بارشوں کا آغاز ہوچکا ہے اور گزشتہ دوتین دنوں میں کراچی سے چترال تک ملک کے بیشتر حصوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے باران رحمت کے نزول کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس سے ایک جانب گرمی کے ستائے ہوئے شہریوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے تو دوسری جانب ملک کو درپیش پانی کی قلت کے مسئلے میں بھی کمی کی امید پیدا ہوگئی ہے تاہم بد قسمتی سے ہر سال کی طرح اس سال بھی مون سون کے آغاز پرہماری انفرادی و اجتماعی غفلت و لاپرواہی کے نتیجے میں بارشوں سے بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصانات کی اطلاعات نے پوری قوم کو دکھی کردیا ہے۔

سب سے افسوسناک سانحہ سوات میں پیش آیا جہاں سیالکوٹ سے آئے ہوئے ایک ہی خاندان کے دس افراد سمیت 17افراد جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے، دریائے سوات میں اچانک آنے والے سیلابی ریلے کی نذر ہوگئے اور کافی دیر ایک ٹیلے پر پھنسے رہنے اور مدد کے لیے پکارنے کے باوجود انہیں بچایا نہ جاسکا۔اس اندوہناک واقعے پر جہاں قومی سطح پر افسوس اور رنج و الم کا ا اظہار کیا جارہا ہے،وہیں ملک میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے انتظامات،سیاحتی مقامات پر حفاظتی تدابیر اور حادثات پر فوری ردعمل دینے کی سول انتظامیہ کی استعداد کار سے متعلق بھی بہت سے سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔بالخصوص تحریک انصاف کی صوبائی حکومت جو گزشتہ 13برسوں سے خیبرپختونخوا میں برسر اقتدار ہے،اس کی کارکردگی پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے قائم وفاقی ادارے این ڈی ایم اے کی جانب سے صوبائی حکومت کو مون سون کے آغاز پر طوفانی بارشوں اور دریاؤں میں طغیانی کے خطرے سے خبردار کیا گیا تھا اورضروری اقدامات کی ہدایت کی گئی تھی مگر صوبائی انتظامیہ بروقت اور موثر اقدامات سے قاصر نظر آئی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق سوات بائی پاس کے قریب جس جگہ پر یہ سانحہ پیش آیا، وہاں اس موسم میں سیاحوں کا رش ہوتا ہے مگر اس کے باوجودوہاں کوئی حفاظتی انتظامات نہیں تھے یہاں تک کہ پولیس بھی موجود نہیں تھی۔ صوبائی انتظامیہ کی ریسکیو ٹیمیں سیلابی ریلے کی آمد کے ڈیڑھ گھنٹے بعد جائے حادثہ پر پہنچیں، اس وقت بھی ان کے پاس پھنسے ہوئے افراد کو ریسکیو کرنے کا سامان موجود نہیں تھا۔صوبائی حکومت نے گزشتہ برس صوبے میں ائیر ایمبولینس شروع کرنے کی نوید سنائی تھی مگر یہاں کوئی ائیر ایمبولیس آئی نہ کوئی ہیلی کاپٹر مدد کے لیے پکارنے والے افراد کو بچانے کے لیے موقع پر پہنچ سکا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق حادثے کے بعد ڈوبنے والے افراد کی تلاش کاکام بھی سوات کے مقامی رضا کاروں نے اپنے طور پر کیا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل دوسال پہلے کوہستان میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جب پانچ افراد دریا کے کنارے ایک چٹان کے اوپر پھنس گئے تھے اور کئی گھنٹوں تک مدد کے لیے پکارتے رہنے باوجود ان کو بچانے کے لیے کوئی نہیں آیا تھا۔ اس واقعے پر بھی سخت عوامی ردعمل سامنے آیا تھا اور اس کے بعد توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ آیندہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ناگہانی آفات سے نمٹنے کے لیے بہتر انتظامات کیے جائیں گے اور کوئیک رسپانس کی صلاحیت رکھنے والے امدادی ادارے بنائے جائیں گے مگر تازہ سانحہ نے ثابت کردیا ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی ہمارے ارباب اختیار کی بے حسی اور لاپرواہی کی روش میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تازہ سانحے کے بعد بھی ان کی جانب سے محض خانہ پری اور دفع الوقتی کی کارروائیاں کی جارہی ہیں اور حسب معمول وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کا بازار گرم کردیا گیا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ بنیادی طور پر یہ صوبائی حکومت اور مقامی سول انتظامیہ کی نااہلی اور ناکامی ہے کیونکہ انیسویں ترمیم کے بعد بیشتر انتظامی ادارے صوبوں کے حوالے کیے جاچکے ہیں، یہ بات بھی حقیقت ہے کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اس وقت سے صوبے کے انتظام سے زیادہ اپنے پارٹی سربراہ کی رہائی کے معاملے میں زیادہ الجھی ہوئی ہے اور باہمی اختلافات سے نمٹنے میں مصروف ہے جس کی وجہ سے صوبے کے حالات ناگفتہ بہ ہوتے جا رہے ہیں مگر ہم سمجھتے ہیں کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے سلسلے میں وفاقی حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ این ڈی ایم اے ایک وفاقی ادارہ ہے جس کے قیام اور وجود کا مقصد ہی قدرتی آفات سے نمٹنے کے انتظامات کرنا ہے، کیا اس ادارے کا اب صرف اتنا کام رہ گیا ہے کہ یہ صوبائی حکومتوں کو قدرتی آفات کی آمد کی خبر دیتا رہے؟ اس مقصد کے لیے تو محکمہ موسمیات پہلے سے قائم ہے اور کام کر رہا ہے۔ ویسے بھی آج کل موسم کے حالات ، دریاؤں میں طغیانی کی صورت حال اور ہواؤ ں کی رفتار جیسے معاملات لوگوں کو موبائل فون پر ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اس لیے اب محکمہ موسمیات کی بھی ضرورت نہ رہی۔ اس لیے این ڈی ایم اے جیسے اداروں کو اپنی افادیت ثابت کرنے کے لیے اب زمین پر آکر کار کردگی دکھانا ہوگی۔

اس ضمن میں ماحولیاتی تغیرات کے اثرات کی پیش بینی اور پیش بندی ناگزیر ہے۔ موسمی تغیرات کے خوفناک اثرات ہم گزشتہ برسوں کے دوران بھی غیر معمولی بارشوں اور سیلابوں کی صورت میں دیکھ چکے ہیں، مختلف بین الاقوامی ادارے مسلسل انتباہ کر رہے ہیں کہ موسمی تغیرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پاکستان میں غیر معمولی حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ تازہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق گرمی میں اضافے کے ساتھ ہی چترال کے بلندوبالا پہاڑی سلسلوں میں موجود گلیشیرز کے پگھلنے کا سلسلہ بھی تیز ہوگیا ہے جس کی وجہ سے وہاں دریاؤں میں طغیانی آرہی ہے اور دریائی کٹاؤ کی زد میں آکر سڑکیں ٹوٹ رہی ہیں۔ بعض ماہرین” گلاف” یعنی گلیشیرز کے پگھلنے کے خطرے کو پاکستان کے لیے کسی بڑے بم کے خطرے کے مشابہ قرار دے چکے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کو بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسی طرح صوبائی حکومت کو اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کرکے صوبے کے عوام کے تحفظ پر بھی تھوڑی توجہ دینی چاہیے۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت صوبے میں سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات کرنے کے بلند بانگ دعوے کرتی آئی ہے، سوات جیسے شہر میں جہاں ہر سیزن میں بلامبالغہ لاکھوں ملکی و غیر ملکی سیاح آتے ہیں، سیاحوں کے تحفظ کے لیے صوبائی حکومت کے اقدامات کی حقیقت تازہ سانحے سے عیاں ہوچکی ہے۔ اب صوبائی حکومت کو خود ہی اپنی کار کردگی پر غور کرنا چاہیے ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی!