آج متحدہ عرب امارات میں میرے سترہ سال پورے ہو چکے۔ سترہ سال کوئی تھوڑا عرصہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک عمر کا نچوڑ ہوتا ہے، تجربات کا خزانہ، مشاہدات کی دولت اور محسوسات کا آئینہ۔ میں نے زندگی کے یہ قیمتی سال متحدہ عرب امارات میں گزارے اور آج جب میں مڑ کر دیکھتا ہوں تو دل میں ایک ہی جذبہ ابھرتا ہے: امن و امان اور اطمینان۔ اس دھرتی نے مجھے صرف رزق ہی نہیں دیا، بلکہ امن، عزت اور سکون جیسی نعمتوں سے بھی مالامال کیا۔ بڑی احسان فراموشی ہوگی اگر میں اس پرسکون جزیرہ نما ملک کا ذکر خیر نہ کروں۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں امن صرف قانون کی کتابوں تک محدود نہیں بلکہ لوگوں کی زندگیوں میں رواں دواں ایک حقیقت ہے۔ یہاں ہوٹل میں جائیں، موبائل میز پر رکھ کر واش روم چلے جائیں، واپس آئیں تو سب کچھ ویسا ہی سلیقے سے رکھا ہوا ملتا ہے۔ کہیں بدگمانی نہیں، کہیں خوف نہیں۔ یہاں کا شہری ہو یا مقیم، سب کو معلوم ہے کہ قانون کی آنکھ کبھی نہیں جھپکتی اور اس کی چھتری سب پر یکساں طور پر سایہ فگن ہے۔
سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ یہ ملک رنگ، نسل، مذہب اور مسلک کے تنوع سے بھرا ہوا ہے۔ دنیا کے ہر خطے، ہر عقیدے، ہر مزاج کے لوگ یہاں بستے ہیں، لیکن امن و آشتی کی فضا قائم ہے۔ فرقہ واریت جیسا زہر یہاں پنپنے ہی نہیں دیا جاتا۔ ابھی کل ہی دس محرم الحرام کا دن گزرا ہے۔ اہل تشیع یہاں بھی پائے جاتے ہیں، مگر یہاں سڑکوں پر کوئی ہنگامہ، ماتم یا جلوس ہمیں نظر نہیں آیا۔ ہر کوئی اپنے عبادت خانوں میں اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرتا ہے، لیکن کسی کی آزادی کسی دوسرے کی تکلیف کا باعث نہیں بنتی۔ ہمارے ہاں عموماً عرب ممالک (جہاں شخصی حکومتیں قائم ہیں) کو غلام کہہ کر یاد کیا جاتا ہے، مگر یہ شعور، یہ نظم و ضبط اور باہمی احترام دنیا کے کئی جمہوری معاشروں کو آئینہ دکھاتا ہے۔
کچھ برس قبل کا واقعہ ہے، جس پر ہم نے انہی صفحات پر ایک کالم بھی لکھا تھا۔ ہم متحدہ عرب امارات کی ریاست راس الخیمہ کے ایک بلند پہاڑی مقام کی سیر کیلئے گئے۔ اچانک سلطنتِ عُمان کی سرحد کی طرف سے آنے والے سیلابی ریلے نے ہمیں گھیر لیا۔ اندھیری رات، کھلے آسمان تلے، سیکڑوں لوگ بے یار و مددگار، لیکن وہ رات بھی اس ملک کے اداروں کی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت بن گئی۔ ہیلی کاپٹر خوراک لے کر آیا، انتظامیہ پوری رات متحرک رہی اور صبح ہمیں ہیلی کاپٹر ہی کے ذریعہ محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔ تقریباً پانچ سو کے قریب لوگ تھے۔ ان کی گاڑیاں وہیں رہ گئیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب دس دن بعد وہاں گاڑی لینے گئے تو ان میں سے ایک پر بھی خراش تک نہ آئی تھی۔ نہ چوری اور نہ ہی توڑ پھوڑ۔ ایسا منظم، بااعتماد اور پرامن معاشرہ شاید ہی کہیں اور ہو۔
الحمد للہ یہ میں ایک مسلم ملک کی بات کر رہا ہوں۔ یقینا اس امن کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہوں گے۔ میری نظر میں مگر تین اساسی ستون سب سے نمایاں ہیں: اوّل: انسانیت کی قدر۔ دوم: حکومت کی رٹ۔ سوم: قومی شعور۔یہاں کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ قانون سے بالاتر ہو کر من مانی کرے۔ نہ حکومتی ادارے مصلحت کا شکار ہوتے ہیں، نہ عوام قانون شکنی کو آزادی سمجھتے ہیں۔ ہر شہری جانتا ہے کہ اس کی عزت، آزادی اور سلامتی قانون کے تابع ہے اور یہی شعور پورے معاشرے میں نظم و ضبط پیدا کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں حکومتی رٹ کی پابندی کو غلامی سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کوئی ضابطہ نافذ ہو تو اسے جبر کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ میڈیا آزاد ہے، لوگ آزاد ہیں اور زبانیں اتنی آزاد ہیں کہ جو دل میں آتا ہے، منہ پر آ جاتا ہے۔ نتیجہ؟ بدامنی، انتشار اور بے یقینی کی ایک طویل داستان۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ آزادی جب شعور سے عاری ہو جائے، تو وہ بگاڑ جنم دیتی ہے، اصلاح نہیں۔ ہمارے معاشرے کو غلامی نے نہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ آزادی نے بگاڑا ہے۔ ایسی آزادی کی کہ جو جب اور جو چاہے بول دے تو اسلام بھی ہمیں اجازت نہیں دیتا۔ ارشاد ربانی ہے: انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا، مگر اس پر ایک نگران مقرر ہوتا ہے، جو ہر وقت لکھنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ (سورہ ق آیت 18) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات کی راہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا: اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھر کی وسعت میں مقید رہو اور اپنی خطاوں پر روتے رہو۔ (ترمذی)
ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب لوگوں پر دھوکے سے بھرپور سال آئیں گے۔ ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا کہا جائے گا۔ بد دیانت کو امانت دار سمجھا جائے گا اور دیانت دار کو بد دیانت کہا جائے گا اور رُوَیبِضَہ باتیں کریں گے۔ پوچھا گیا: رُوَیبِضَہ کا مطلب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: حقیر آدمی عوام کے معاملات میں رائے دے گا۔ (مسند احمد)
آج ہمارے معاشرے میں ہر طرف ”رویبضہ” کا راج ہے۔کوئی عالم بن بیٹھا ہے، کوئی ڈاکٹر ہے، کوئی سیاسی تجزیہ کار ہے اور کوئی کچھ اور۔ فضول ولاگز ہیں، تحریریں اور بلاگز ہیں جنہوں نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ بعض تو کئی بار قیامت بھی برپا کر چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم امارات جیسے ممالک سے سبق لیں، جہاں آزادی اور قانون میں ایک حسین توازن قائم ہے، جہاں شہری شعور کے ساتھ جیتے ہیں اور حکومت عزت و انصاف کے ساتھ حکمرانی کرتی ہے۔ اگر ہم اپنے ملک میں بھی قانون کو غلامی نہیں بلکہ امن کی ضمانت سمجھنا شروع کر دیں، تو شاید ہمارے چہرے سے بھی خوف کے سائے چھٹنے لگیں۔ کاش ایسا ہو جائے!