ہلاکو خان کی قیادت میں منگولوں نے 1258ء میں عباسی خلافت کے دارالخلافہ بغداد پر حملہ کیا تو علم، تہذیب اور تمدن کا ایک عظیم مرکز مٹی میں ملا دیا گیا۔ لائبریریوں کو آگ لگا دی گئی، علماء کو تہ تیغ کیا گیا اور شہر کی گلیاں انسانی لاشوں سے بھر گئیں۔ انسانی کھوپڑیوں کے مینار چنے گئے اور دجلہ و فرات کا پانی سرخ ہو گیا۔
مؤرخین نے اس ہولناک ظلم کو انسانی تاریخ کا بدترین سانحہ ڈکلیئر کیا مگر اس خون آشام المیے کے باوجود مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ منگولوں نے بچوں کو جنگی ہدف کے طور پر نشانہ نہیں بنایاتھا۔ منگول آندھی سے قبل اور بعد میں بھی انسانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بچوں کو باقاعدہ جنگ کا ہدف بنایا گیا ہو۔ نمرود، فرعون، چنگیز خان اور جارج ڈبلیو بش جیسے جابر اور ظالم حکمرانوں نے بھی بچوں کی نسل کشی کو جنگی حکمتِ عملی کا حصہ نہیں بنایا۔ یہ بدبختی اگر کسی قوم کے حصے میں آئی تو یہ وہی قوم ہے جسے اللہ نے قیامت تک ذلت و مسکنت اور لعنت و پھٹکار کا مستحق ڈکلیئر کیا ہے۔
یونیسیف کے ترجمان جیمز ایڈر نے پچھلے دنوں ایک پریس کانفرس میں بتایا کہ غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک پچاس ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ معذور ہو چکے ہیں۔ اسپتالوں میں روزانہ درجنوں معصوم بچے داخل ہو رہے ہیں جو جسمانی اعضا سے محروم اور شدید زخمی ہوتے ہیں۔ سینکڑوں بچے بھوک کی وجہ سے شہید ہو ئے ہیں او رہزاروں ایسے ہیں جو ہڈیوں کا پنجر بن چکے ہیں اور ان کی مائیں ان کے مرنے کی دعائیں کر رہی ہیں۔ کئی جگہوں سے شیرخوار بچوں کے جلے ہوئے جسم ملے ہیں جو جل کر کوئلہ بن چکے ہیں۔
بین الاقوامی قانون، جنیوا کنونشن، اقوامِ متحدہ کی قراردادیں اور بچوں کے تحفظ کے عالمی معاہدے سب غزہ کے گلی کوچوں میں دفن ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج جان بوجھ کر اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گاہوں اور راشن کی قطاروں میں کھڑے بچوں پر بم گرا رہی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہ حقائق عالمی میڈیا، سوشل میڈیا اور بین الاقوامی رپورٹس میں documented ہیں، پوری دنیا کو معلوم ہیں، ساری دنیا لائیو یہ مظالم دیکھ رہی ہے، مگر اس کے باوجود ”مہذب دنیا” خاموش بیٹھی ہے۔ وہ مہذب دنیا جہاں بلیوں اور کتوں کے حقوق کے لیے بھی باقاعدہ عدالتیں موجود ہیں۔ اس مہذب دنیا کی سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے چیمپئن، عالمی قوانین کے رکھوالے اور این جی اوز ان سب کی حقیقتیں غزہ کی گلیوں میں تار تار ہوئی پڑی ہیں۔
رہے عرب ممالک تو ہم نے دین اسلام سے قبل اہل عرب کی سنگدلی، بے حسی اور اخلاقی پستی کی جو داستانیں کتابوں میں پڑھی تھیں، انہیں آج اس سارے معاملے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ سچ صرف یہ ہے کہ اہل عرب اگر تاریخ میں کبھی معزز ہوئے تو اس کی وجہ ان کی کوئی ذاتی صفات یا شخصی کمالات نہیں تھے بلکہ یہ صرف اور صرف دین حق کی عطا تھی کہ انہیں تاریخ میں ایک عظیم قوم کی شناخت عطا کی۔ ورنہ اپنی ذات میں یہ خود پرست، مفادات کے اسیر، خوشامد کے خوگر، بدو، تہذیب سے نابلد اور طاقت کے مراکز کے سامنے سربسجود رہے ہیں۔ آپ دیکھ لیں آج خطے کے عرب ممالک کے پاس بے پناہ وسائل، مضبوط سفارتی قوت اور مکمل علاقائی اثر و رسوخ موجود ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے غزہ میں جاری انسانی تاریخ کے اس بھیانک ترین ظلم و ستم کو روکنے کے لیے کوئی بامعنی قدم نہیں اٹھایا، کوئی ایسی کوشش ہی نہیں کی جو خاطر خواہ سمجھی جائے۔ ان کے لیے اسرائیل سے تعلقات، اپنے اقتدار کا تحفظ، امریکی مفادات اور تجارتی تعلقات زیادہ اہم ہیں۔ عرب ممالک کی یہ سفارتی لاتعلقی، سیاسی مصلحت اور اخلاقی بے حسی ان کے اجتماعی انحطاط کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
رہے بنی اسرائیل تو اللہ نے اپنی کتاب میں اپنا تعارف انصاف کرنے والے کے طور پر کروایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے انصاف کرتا ہے۔ اللہ نے آسمانی کتابوں میں بنی اسرائیل پر تاقیامت ذلت ومسکنت کے مسلط رہنے کی جو پیشین گوئی کی تھی، انسانی ذہن اسے قبول کرنے اور اس کی تفہیم میں تذبذب کا شکار تھا کہ کیسے ایک قوم کو، اس کے پرکھوں کے اعمال کی بنا پر تاقیامت ذلت ورسوائی کا مستحق ڈکلیئر کیا جا سکتا ہے، لیکن انسانی تاریخ میں پہلی بار بچوں کو باقاعدہ قتل و خون کا ہدف بنا کر اس قوم نے انسانی ذہن کے مغالطوں کو دور کر کے اللہ رب العالمین کی صفت انصاف کو پوری طرح مبرہن کردیا ہے۔
یہ وہی بدبخت قوم ہے جس نے ماضی میں انبیاء کو قتل کیا، اللہ کے احکامات کا مذاق اڑایا، وعدے توڑے، سود اور فریب کو اپنایا اور زمین میں فساد پھیلایا۔ یہ وہ قوم ہے جس کا مجرمانہ ریکارڈ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ انہوں نے حضرت زکریا کو آرے سے چیر دیا، حضرت یحییٰ کو شہید کیا اور حضرت عیسیٰ کو صلیب پر چڑھانے کی کوشش کی۔ انبیاء کے ساتھ بدتمیزی، گستاخی اور الزام تراشی ان کی فطرت بن چکی تھی۔ یہ تورات میں تحریف کرتے رہے، احکامِ الٰہی کو مرضی سے بدلتے اور چھپاتے رہے۔ یہ سود خوری کے رسیا تھے، انہوںنے یتیموں کا مال کھایا، جھوٹ کو ذریعہ معاش بنایا اور فریب و دھوکا دہی کو اجتماعی مزاج کا حصہ بنایا۔ یہ قوم آج بھی اسی روش پر قائم ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر اللہ نے قرآن میں فرمایاکہ یہ قوم تا قیامت اللہ کی لعنت اور پھٹکار کی مستحق رہے گی۔ آج یہ قوم غزہ میں جو کچھ کر رہی ہے، یہ قرآن کی پیش گوئیوں کی تفسیر بنتی جا رہی ہے۔ اس نے اپنے تاریخی جرائم کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے ثابت کر دیا ہے کہ یہ لعنت اور پھٹکار سے بھی آگے کی مستحق تھی۔
آج دنیا کے کسی کونے سے غزہ کے بچوں کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھ رہی۔ مشرق و مغرب، عرب وعجم، مذہبی و ملحد اور مہذب و غیر مہذب سب خاموش اور بے حس پڑے نظر آتے ہیں۔ میرا کرب یہ ہے کہ میرے لیے اس عہد میں زندہ ہونا ایک فکری اضطراب بن چکا ہے۔ یہ ا ضطراب کہ میں ایک ایسے عہد میں زندہ ہوں جہاں بچوں کی لائیو نسل کشی کی جا رہی ہے، جہاں بچوں کو کھانے کی قطاروں میں کھڑا کر کے بم گرائے جا رہے ہیں۔ جہاں شیر خوار بچوں کے کوئلہ بنے جسم اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس سفاکیت اور وحشت نا ک دنیا میں خاموش تماشائی بن کر جینا محض ایک حیاتیاتی سرگرمی تو ہو سکتی ہے، ایک زندہ اخلاقی وجود ہرگز نہیں۔
کاش اکیسویں صدی کے بعد آنے والی نسلیں جب تاریخ کے اوراق میں اس سفاک عہد کو پڑھیں اور اس عہد میں جینے والی انسانیت پر چار حرف بھیجیں تو وہ یہ جان لیں کہ کچھ لوگ ایسے تھے جو اس ظلم پر خاموش نہیں تھے۔ وہ مضطرب تھے، شرمسار تھے اور اس عہد میں زندہ ہونے پر متاسف اور اس کو اپنی بدقسمتی سمجھتے تھے۔ وہ لعنت و پھٹکار کی مستحق قوم کی سفاکیت اور وحشیانہ پن کے خلاف مسلسل گواہی دیتے رہے…!