اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں میں سے ایک بڑی اور اہم نعمت پانی ہے۔ پانی کے بغیر انسان کے لیے زندہ رہنا ممکن نہیں۔ پانی ہی زندگی کے نمو اور تسلسل کی علامت ہے۔ دریا بہتے ہوں تو کناروں پر انسانی بستیاں آباد ہونے لگتی ہیں۔ دریا کا پانی خشک ہونے لگے تو وہاں زندگی کا وجود سکڑنے لگتا ہے
جہاں پانی نہیں ہوتا وہاں مسکن نہیں ہوتے
صدیوں سے پانی انسانی زندگی کے ساتھ جڑا ہوا ایک لازم ملزوم جزو ہے، انفرادی زندگی سے اجتماعی زندگی تک پانی ملکوں کی زراعت، معیشت اور ماحولیات کے توازن کی ایک بنیادی کلید ہے۔ پانی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ انسان کی روزمرہ ضروریات کے علاوہ جانوروں، پرندوں، کیڑوں مکوڑوں غرض ہر جاندار، نباتات و جمادات، زراعت، درخت، سبزہ، پھل و پھول کے لیے خوراک کی حیثیت رکھتا ہے۔ صنعتیں اور انڈسٹریز، کارخانے سب اس کے محتاج ہیں۔ بجلی اور توانائی کا منبع بھی پانی ہوتا ہے۔ مختصر یہ کے دنیا کی بقا کے لیے پانی لازمی جزو ہے۔ اس لیے ہماری زمین کا تقریباً اکہتر فیصد رقبہ پانی سے ڈھکا ہوا ہے اور اسے قدرت مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچاتی ہے۔ سمند ر، دریا، جھیلیں، بارش، چشمے اسی کام پر مامور ہیں۔
ملکوں کی جغرافیائی تقسیم کی صورت میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ملک دریا کے منبع کے قریب واقع ہے، یعنی وہ دریا کے بالائی حصے میں واقع ہے، جہاںسے دریا کا آغاز ہوتا ہے جبکہ دوسرا ملک اسی دریا کے زیریں حصے کی طرف واقع ہے۔ دریا کے بالائی حصے میں واقع ملک کے پاس اس پانی کو استعمال کرنے، روکنے، چھوڑنے کا اختیار زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ بھارت دریائے سندھ کے بالائی حصے میں واقع ہے، اس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ پانی کو روک سکتا ہے، چھوڑ سکتا ہے تو بھارت اپنی ہٹ دھرمی اور کشیدگی اور انتشار پیدا کرنے کی فطرت سے باز نہیں آتا
چاند ہے تو عکس بھی پانی میں آئے گا
کردار خود ابھر کے کہانی میں آئے گا
پاکستان کی تشکیل کے وقت برصغیر کی تقسیم صرف زمینی سرحدوں تک محدود نہیں رہی بلکہ پانی جیسے اہم ترین وسائل کی تقسیم کا مسئلہ بھی پیدا ہوا۔ سندھ طاس کے دریا، جو پاکستان کی زرخیزی اور معیشت کی بنیاد تھے، ان پر بھارت نے شروع دن سے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ 1960میں سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی نگرانی میں طے پایا، جس میں تین مغربی دریا پاکستان کیلئے مخصوص کیے گئے، لیکن بھارت نے اس معاہدے کو کبھی دل سے قبول نہ کیا۔ معاہدے کی روح کے خلاف بھارت نے ان دریائوں پر مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے کنٹرول حاصل کرنے کی سازشیں کیں، جن میں ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے بہاو میں مصنوعی رکاوٹیں شامل ہیں۔ بھارت کی آبی جارحیت محض ایک انتظامی یا ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سیاسی اور اسٹرٹیجک حکمت عملی کا حصہ ہے۔ بھارت نے مختلف اوقات میں مغربی دریائوں پر بگلیہار ڈیم، کشن گنگا ڈیم اور رتلے ڈیم جیسے منصوبے مکمل کیے جن کا مقصد پاکستان کو پانی کے قدرتی بہاؤ سے محروم کرنا ہے۔ یہ ڈیم نہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی ہیں بلکہ اس سے پاکستان کے لیے زرعی، معاشی اور ماحولیاتی تباہی کے دروازے کھلتے جا رہے ہیں۔ پانی کی مصنوعی کمی سے نہ صرف لاکھوں ایکڑ زرعی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں بلکہ بجلی کی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے، جس سے توانائی کا بحران جنم لیتا ہے۔ اس خطے میں بہنے والا سب سے بڑا دریا، دریائے سندھ کا منبع اگرچہ چین کا علاقہ تبت ہے لیکن یہ بھارت کے زیر انتظام جموں اور کشمیر میں بہتے ہوئے پاکستان کے علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ دریائے سندھ کے دوسرے معاون دریا بھی بھارت کے زیر انتظام علاقوں سے بہتے ہوئے پاکستان کی طرف آتے ہیں۔
سندھ طاس کے دریا، جو پاکستان کی زرخیزی اور معیشت کی بنیاد تھے، ان پر بھارت نے شروع دن سے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریاوں ستلج، بیاس، راوی پر بھارت کو اختیار دیا گیا۔ انڈس واٹر ٹریٹی کو عالمی سطح پر پانی کاسب سے کامیاب معاہدہ کہا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگیوں اور جنگوں کے باوجودیہ معاہدہ برقرار رہا۔ اس میں تھوڑی بہت اونچ نیچ ضرور ہوتی رہی لیکن یہ معاہدہ معطل نہیں ہوا۔ پہلگام واقعے کے بعد اپریل 2025ء میں بھارت نے پانی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی اور انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ پاکستان نے عالمی ثالثی عدالت یا کورٹ آف آربیٹریشن سے رجوع کیا، جس کا فیصلہ 27جون 2025ء کو آیا جس میں پاکستان کی جیت ہوئی۔ کورٹ آف آربیٹریشن نے جو دو ٹوک فیصلہ دیا اس کے مطابق یہ معاہدہ بدستورقابل عمل ہے، کوئی ایک فریق اپنی مرضی اور منشا کے مطابق نہ اسے معطل کر سکتا ہے نہ اس کی کسی شق میں ترمیم کر سکتا ہے نہ اس کا متن تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ واضح طور پر بھارتی موقف کی تردید ہے۔
بھارت ایک خاموش مگر مہلک جنگ لڑ رہا ہے، جس کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔ ہمارے ڈیموں میں بھی پانی کے ذخائر میں بھی مسلسل کمی کا سلسلہ جاری ہے، ملک میں قابل استعمال پانی کا ذخیرہ ایک لاکھ 61ہزار ایکڑفٹ کم ہوگیا اور قابل استعمال پانی کا ذخیرہ 40لاکھ 44ہزار ایکٹر فٹ پر آگیا۔
پاکستان میں آبی ذخائر کی قلت، ڈیموں کی عدم تعمیر اور پانی کے ضیاع جیسے اندرونی مسائل نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ اگر پاکستان نے اپنی اندرونی اصلاح نہ کی اور بھارت کی آبی جارحیت کا بھرپور سفارتی، قانونی اور سائنسی مقابلہ نہ کیا تو مستقبل میں حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ پاکستان کوایک طویل المدتی قومی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ڈیموں کی فوری تعمیر، پانی کے موجودہ وسائل کا بہتر انتظام اور جدید زرعی طریقوں کو اپنانا اشد ضروری ہے۔ ایک جارحانہ سفارتی مہم کے ذریعے بھارت کو بے نقاب کیا جائے اور سندھ طاس معاہدے کی عالمی ضمانت کو موثر بنایا جائے۔ ساتھ ہی بین الاقوامی عدالتوں میں بھارت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کو سنجیدگی سے آگے بڑھایا جائے تاکہ دنیا بھارت کی آبی دہشت گردی کو تسلیم کرے اور پاکستان کو انصاف ملے۔
پاکستان کی معیشت میں سب سے بڑا حصہ زراعت کا ہے۔ پنجاب کے بیشتر علاقوں میں اس سال خریف کی فصل کی کاشت تقریباً 50فیصد کم ہوئی ہے جو پاکستان کے زرعی مستقبل پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ پانی کے خاتمہ کی سب سے تازہ مثال جنوبی افریقہ کے ساحلی شہر کیپ ٹاؤن کی ہے جہاں عالمی اداروں کی جانب سے چند سال قبل پانی کے خاتمہ کی وارننگ جاری کی گئی تھی اور اب وہاں سے پانی کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ جس حساب سے ہمارے ہاں روزانہ کی بنیاد پر پانی کو ضائع کیا جا رہا ہے، اگر یہی صورتحال رہی تو آئندہ چند سالوں میں ہمارا حال اس سے بھی بدتر ہوگا کیونکہ جنوبی افریقہ میں تو پھر بھی حکومت عوام کی اشک شوئی کے اقدامات کرتی ہے اور حکومت دوسرے شہروں سے ٹینکرز کے ذریعے پانی فراہم کر رہی ہے لیکن پاکستان میں صورتحال کو بہتر طریقے سے کنٹرول کرنا تو دور کی بات ہے ، یہاں (خاکم بدہن) صرف افراتفری اور خانہ جنگی کا سماں ہی ہو سکتا ہے۔
عوام میں پانی کے حوالے سے شعور بیدار کرنا بھی ضروری ہے۔ اسکولوں، کالجوں اور میڈیا کے ذریعے پانی کی اہمیت اور اس کے تحفظ کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے تاکہ ہر شہری اس قومی مسئلے کی سنگینی کو سمجھے اور اپنی سطح پر اس کا دفاع کرے۔ بھارت کی آبی دہشت گردی کا توڑ صرف حکومت کی کوششوں سے نہیں ہوگا بلکہ پوری قوم کو اس کے لیے متحد ہونا پڑے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان پانی کے مسئلے کو اپنی بقاکا سوال تصور کرے ورنہ معیشت ڈوب جائے گی اور بالآخر قومی سلامتی شدید خطرے میں پڑ جائے گی۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی کبھی بحال نہیں ہوگی۔ عالمی عدالت میں اپنے موقف کی شکست کے بعد بھی بھارت کا رویہ رسی جل گئی پر بل نہیں گیا کے مصداق ہے!