بھارت کے خلاف جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد سے پاکستان پر گویا عالمی سطح پر کامیابیوں کے دروازے کھل گئے ہیں اور بفضلہ تعالیٰ پے درپے حاصل ہونے والی سفارتی کامیابیوں نے پاکستان کے عالمی اعتماد میں اضافہ کردیا ہے جس کے مظاہر قریبی دوست ممالک کے ساتھ مختلف معاہدوں کے ساتھ ساتھ پاک امریکا تعلقات میں بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان نہ صرف بھارت کیخلاف اپنا مقدمہ جیت رہا ہے بلکہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں قیام ِ امن کیلئے بھی کردار ادا کرتا دکھائی دے رہاہے، جیسا کہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور امریکی وزیر خارجہ کے درمیان مواصلاتی رابطے پر ہونے والی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے۔
پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو سفارتی محاذ پر متعدد ناکامیوں کا سامنا ہوا ہے، بیجنگ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع کے اجلاس کے دوران پیش آنے والے واقعات نے پاک بھارت تعلقات کی موجودہ صورتحال اور عالمی سطح پر ان کے مقام کو واضح کر دیا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا مشترکہ اعلامیے پر دستخط سے انکار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بھارت سفارتی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ یہ واقعہ عالمی سطح پرمودی سرکار کی سفارتی شکست کی عکاسی کرتا ہے۔ بھارت کی داخلی و خارجی پالیسیوں میں کارفرما انتہا پسندانہ نظریات کا نتیجہ ایسی ہی ناکامیوں کی صورت میں نکلنا چاہیے۔ بھارت کی حالیہ شکست اور سفارتی ناکامیوں کا تاریخی پس منظر خطے کے حالات کو سمجھنے کیلئے اہمیت رکھتا ہے۔ دراصل بھارت کی موجودہ پالیسیوں کی جڑیں آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریے میں پیوست ہیں، جو ایک متعصبانہ اور جارحانہ سوچ پر مبنی ہے۔ یہ نظریہ ایک ”ہندو راشٹر” کے قیام کا حامی ہے، جہاں اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور پاکستان کو ایک مستقل دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ایک سے ڈیڑھ دہائی کے دوران خاص طور پر نریندر مودی کی قیادت میں اس نظریے کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوششیں کی گئیں، جس کے نتیجے میں بھارت نہ صرف اندرونی طور پر تقسیم کا شکار ہوا بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر بھی اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔ آر ایس ایس کی فکر سے پروان چڑھنے والی بی جے پی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد سے جس تنگ نظر طرز حکمرانی کو فروغ دیا ہے، اس نے بھارت کو ایک جمہوری اور سیکولر ریاست کی بجائے ایک متعصب اور شدت پسند ریاست کے طور پر پیش کیا ہے۔ مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کیخلاف ظلم و ستم کے واقعات، شہریت کے متنازعہ قوانین کا نفاذ اور بابری مسجد کے فیصلے جیسے اقدامات نے سماجی ہم آہنگی کو پارہ پارہ کر دیا۔ کشمیریوں پر مظالم، ان کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور وادی میں طویل لاک ڈاؤن نے بھارت کے دعویٰ جمہوریت اور انسانی حقوق کا پول کھول دیا۔
خارجی محاذ پر بھی بھارت کی پالیسیاں پاکستان دشمنی کے محور پر گھومتی رہی ہیں۔ پاکستان کیخلاف مسلسل پروپیگنڈا، سرحدوں پر کشیدگی اور ریاستی سطح پر دہشت گردی کی پشت پناہی کے الزامات نے علاقائی امن کو داؤ پر لگا رکھا ہے۔ بلوچستان میں بھارت کی بالواسطہ مداخلت، جس کا ذکر ایس او سی کے اعلامیے میں بھی کیا گیا، اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ اپریل میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 26 بھارتی سیاحوں کے قتل کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ بھارت نے اس واقعے کا الزام فوری طور پر پاکستان پر عائد کر دیا، حالانکہ اس الزام کی کوئی معتبر دلیل پیش نہیں کی گئی۔ اس کے بعد بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کی دھمکی دی اور پھر پاکستان پر ایک محدود فوجی کارروائی کی کوشش کی۔ پاکستان نے اس بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا، جس کے نتیجے میں بھارتی فضائیہ کو شدید نقصان پہنچا۔ اس جنگی جھڑپ کے بعد عالمی برادری کی مداخلت، بالخصوص امریکی صدر ٹرمپ کا کردار انتہائی اہم رہا۔ صدر ٹرمپ نے بارہا یہ بات واضح کی کہ پاک بھارت جنگ بندی ان کی مداخلت پر ہوئی، ورنہ پاکستان بھارت کو سنگین نقصان پہنچا سکتا تھا۔ اس فوجی شکست کے باوجود بھارتی ”گودی میڈیا”نے اپنے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ بھارت نے یہ جنگ جیت لی ہے اور پاکستان کو شکست سے دوچار کیا ہے، جبکہ حقیقت برعکس تھی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس میں بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا مشترکہ اعلامیے پر دستخط سے انکار اور ان کی تلملاہٹ اس بات کی واضح علامت ہے کہ بھارت عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ اعلامیے میں پہلگام واقعے کا ذکر نہ ہونا اور اس کے برعکس بلوچستان میں بھارت کی مداخلت اور دہشت گردی کی مذمت کا ذکر فی الواقع یہ ثابت کرتاہے کہ بھارت کی پراکسی وار اور پاکستان کیخلاف بالواسطہ جنگ اب کوئی پوشیدہ معاملہ نہیں رہا۔ دنیا کے بیشتر ممالک اور اقوام اب بھارت کی موجودہ قیادت کے ایجنڈے کو اچھی طرح سمجھ رہی ہیں۔ عالمی امور پر نگاہ رکھنے والے بعض ماہرین کے مطابق بھارت اسرائیل کے ساتھ اشتراک سے پاکستان مخالف پروپگنڈے میں اضافہ کرسکتاہے اور اس کی آڑ میں کوئی نئی سازش بھی رچائی جاسکتی ہے۔ گو پاکستان کے لیے امریکی قیادت بھی اچانک ایک نئی آزمائش کا روپ اختیار کرسکتی ہے لیکن بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ دشمنی اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کا توڑ ملکی سلامتی کے لیے اولین درجہ رکھتاہے۔
سرِ دست پاکستان کو حاصل ہونے والی سفارتی کامیابیاں اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کامیابیوں کے اسباب میں دفاعی قوت ایک اہم درجہ اختیار کرچکی ہے۔ اپنی موجودہ حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام بالخصوص غزہ میں جنگ بندی کیلئے ضروری اقدامات پر توجہ دینا چاہیے۔ بھارت کی متعصب قیادت کی مانند اسرائیل کی ظالم، سفاک اور انسان دشمن قیادت کے مظالم اور اس کے نسل کشی پر مشتمل حربوں کو پوری دنیا پر واضح کرنا اور ان کے سدباب کے لیے جملہ کاوشیں اختیار کرنا پاکستان پر لازم ہے تاکہ اسرائیل کواس کی حدود یاددلائی جاسکیں۔ اسرائیل آج نہیں تو کل، بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف کوئی نیا کھیل ضروررچائے گا۔ سفارت کاری اہمیت رکھتی ہے لیکن نسلی جنون اور بالادستی کی حرص میں مبتلا بھارت اور اسرائیل کا علاج قوت ہی سے ممکن ہے۔