جدید مشرقِ وسطیٰ ۔ مسلح تنازعات برنارڈ لویس کے منصوبے کا حصہ قرار ( علی ہلال)

مشرق وسطیٰ کے اُمور پر نظر رکھنے والے والے سیاسی وعسکری تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ عرب اور اِسلامی خطے میں حالیہ جنگیں اور مسلح تنازعات اس متنازع منصوبے کا حصہ ہیں جسے’ جدید مشرق وسطیٰ‘ کا نام دیا گیا ہے ، جدید مشرق وسطی امریکا کے یہودی دانشور اور منصوبہ ساز ’برنارڈلویس‘ کا ذہنی اختراع ہے۔

مئی 2018ء میں وفات پانے والے برنارڈ نے مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی شکل دینے کی فکر پیش کی تھی، جس کے مقابلے میں اسرائیل ایک مضبوط اور طاقتور ملک کی حیثیت سے قائم ہو۔ متعدد ماہرین نے مارچ 2011ء میں عرب دنیا میں شروع ہونے والی بغاوتی تحریک عرب اسپرنگ کو اسی منصوبے کا حصہ قرار دیا ہے، جس کے نتیجے تیونس، لیبیا ، مصر، یمن، سوڈان ،شام ،لبنان اور کئی دیگر عرب ممالک بری طرح بدامنی اور اقتصادی بحرانوں کا شکار ہوگئے۔
سوڈان کی حالیہ لڑائی اور غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی تباہی کے بعد غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کو برنارڈلویس کے منصوبے سے جوڑا جارہاہے۔ سعودی عرب کے جریدے المدینہ نے دسمبر میں لکھا تھا کہ امریکی کانگریس نے 1983ء میں ایک خفیہ اجلاس میں مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔ اس یہودی مستشرق نے لکھا تھا کہ ’مسلمان اور عرب فاسد اور شرانگیز قوم ہیں۔ یہ متمدن نہیں بن سکتے۔انہیں اگر اسی طرح چھوڑ دیا جائے تو یہ تہذیبوں کو تباہ کردیں گے۔ اس کا پرامن حل یہی ہے کہ ان کی اراضی کو قبضہ کرکے انہیں زیر کنٹرول رکھنے کے لئے ان کی دینی ثقافت کو زیر دست رکھا جائے۔‘ سعودی جریدے کے مطابق خلیج کی پہلی دوسری جنگیں ہوں یا 2003ء میں عراق پر امریکی قبضہ ہو، یہ سب برنارڈ لویس کے منصوبے کا حصہ ہے۔ عراق جنگ کے بعد داعش جیسی انتہا پسند تنظیم پیدا ہوگئی۔ یمن میں حوثی گروپ کو لانچ کیا گیا۔13 سالہ شامی جنگ میں بڑی تباہی ہوگئی۔ کُردوں کا معاملہ کھڑا کردیا گیا۔ ترکوں کو متحرک کردیا گیا جبکہ ایران کو عرب خطے میں موقع دیا گیا۔ یہ جنگیں اور تنازعات افغانستان اور پاکستان تک پہنچ گئی ہیں جس کا مقصد ان ممالک کی وحدت کو ختم کرکے انہیں سیاسی،اقتصادی اور عسکری سطح پر کمزور کرنا ہے، تاکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ہی واحد طاقتور اور بڑے ملک کے طور پر قائم رہے۔
22فروری 2022ء کو جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے اُستاذ برائے سیاسی اسٹڈیز اور بین الاقوامی امور کے ماہر مارک لینیش نے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے لکھے گئے اپنے مضمون میں کہا تھا کہ امریکا نے ستمبر 2001ء سے قبل مشرق وسطیٰ کے نقشے کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکا جس جدید مشرق وسطیٰ کے منصوبے پر عمل پیرا ہے اُس میں اسرائیل ہی گریٹر ملک کی حیثیت سے موجود ہے جبکہ باقی ممالک میں انارکی اور بدامنی پھیلا کر چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہے۔ نئے مشرق وسطیٰ کی بحث ستمبر 2023ء میں اُس وقت شروع ہوئی تھی جب اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دو نقشے لہرائے اور کہا کہ یہ نئے مشرق وسطیٰ کا نقشہ ہے۔ اگرچہ اس نقشے میں سعودی عرب، مصر، سوڈان ،متحدہ عرب امارات ،بحرین اور اردن کے نام تھے لیکن فلسطین کا اس نقشے میں نام ونشان نہیں تھا۔ اس نقشے اور غزہ جنگ پر بڑی بحث ہوئی تھی۔ اِس میں مزید اضافہ رواں ماہ اُس وقت ہوا جب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے سعودی عرب کی جانب سے فلسطینی ریاست کو سعودی اراضی پر قائم کرنے کی بات کی۔ اس موقع پر سعودی عرب کے سرکاری میڈیاکو خاموشی توڑنی پڑی۔
سات اکتوبر 2023ء سے شروع ہوکر 19 جنوری 2025ء تک جاری رہنے والی جنگ میں امریکا نے کھل کر اسرائیل کی مدد کی۔ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کیا۔ دولت فراہم کی۔ امریکی صدر نے سے وزیردفاع تک سب حکام نے اسرائیل کے دورے کئے اور اسرائیل کو تھپکی دیتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ ستمبر 2024ء میں لبنان پر اسرائیلی جارحیت کی بھی امریکا نے کھلی حمایت کی جبکہ شام میں اسرائیلی بمباری اور فورسز کی مداخلت اور پیش قدمی کا سلسلہ جاری رہا۔ ماہرین ان تبدیلیوں کو جدید مشرق وسطی سے جوڑ رہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز نے کچھ عرصہ قبل لکھا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے 5 ممالک کو 14 ممالک میں کیسے تقسیم کیا جائے گا۔ اس حوالے سے امریکی جریدے نے نقشے بھی دئے تھے جس سے یہ منصوبہ پوری طرح کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق شام کو کردستان، علوستان اور سیستان کے ناموں سے تین حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ ہے۔ شام کے عراق کے ساتھ لگنے والے سنی علاقوں کو سنی آستان کے نام سے الگ ملک قائم کرنے کا منصوبہ ہے جبکہ عراق کے جنوب کو شیعہ اسٹیٹ بنانے کا نقشہ تیار ہوا ہے۔ اس نقشے میں سعودی عرب کو بھی پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔سعودی عرب، عراق اور شام کے ساتھ اس میں یمن اور لیبیا بھی شامل ہیں۔ لیبیا کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ نیا مشرقِ وسطیٰ ہے جس کے لیے امریکا ان عرب ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہاہے۔