عہدہ و منصب ایک بھاری ذمہ داری ہے

دین اسلام کی اعلیٰ و ارفع تعلیمات میں اقتدار، منصب اور ذمہ داری کو عزت یا فخر کی بجائے امانت اور آزمائش قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت میں خود کو عہدوں کے لیے پیش کرنے، عہدے کا حریص ہونے اور اقتدار کی طلب پر سخت تنبیہات ملتی ہیں۔ افسوس کہ ہمارے ہاں ہر شخص کسی نہ کسی عہدے اور منصب کے حصول کی تگ و دو میں لگاہوتا ہے مگر اس بات کا شاید بہت کم لوگوں کو احساس ہے کہ عہدہ و منصب محض نام و نمود کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ آج کل اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے بعد جس طرح ہر دوسرا شخص خود کو امیدوار کے طور پر پیش کر رہا ہے، وہ اس دینی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا جو قیادت اور ذمہ داری کے بارے میں اسلام نے ہمیں سکھایا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کو واضح الفاظ میں نصیحت فرمائی:اے عبدالرحمن بن سمرہ! امارت کا سوال نہ کرنا، اگر تم اسے سوال کے نتیجے میں پاؤ گے تو تمہیں اس کے حوالے کر دیا جائے گا اور اگر بغیر سوال کے دی جائے تو اللہ اس میں تمہاری مدد فرمائے گا۔ (بخاری، مسلم)یہ حدیث اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ خود کو امیدوار کے طور پر پیش کرنا، عہدے کا مطالبہ کرنا یا اس کے لیے دوڑ دھوپ کرنا اللہ کی مدد سے محرومی کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریمۖ کے پاس دو آدمیوں کے ساتھ گئے، ان دونوں نے کسی عہدے کی درخواست کی۔ آپۖ نے فرمایا: ہم اس کام پر اسے مقرر نہیں کرتے جو اس کا طلب گار ہو۔

یہ اصولی ہدایت آج کے انتخابی ماحول کے لیے ایک آئینہ ہے، جہاں اشتہارات، جلسوں اور وعدوں کے ذریعے خود کو اہل ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر جواب دہی کا تصور پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ خلفائے راشدین کا طرزِ عمل بھی اسی فکر کی عملی تصویر ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسا عظیم حکمران، جو عدل و دیانت کی مثال تھا، اپنے صاحبزادے حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد خلافت کے لیے نامزد کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ ان کی بات آئی تو دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ عمر کے خاندان سے ایک شخص کا حساب ہی کافی ہے۔ یہ اس بات کا اعتراف تھا کہ اقتدار کوئی خاندانی اعزاز نہیں بلکہ بھاری بوجھ ہے۔

اسی طرح امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو قاضی القضاة جیسے بڑے منصب کی پیشکش کی گئی، مگر انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس انکار کی بنیاد محض عاجزی نہیں بلکہ خوفِ خدا تھا۔ یہ احساس کہ اگر ایک فیصلہ بھی غلط ہو گیا تو اس کا حساب اللہ کے سامنے دینا ہوگا۔ یہاں تک کہ اس انکار کی پاداش میں انہوں نے قید و اذیت تک برداشت کی، مگر ذمہ داری کے بوجھ کو خوشی سے قبول نہ کیا۔

ان تمام نصوص اور تاریخی واقعات کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انتخابات محض ایک سیاسی سرگرمی نہیں بلکہ حقوق العباد سے جڑا ہوا ایک انتہائی نازک معاملہ ہے۔ بلدیاتی نمائندہ ہو یا کوئی بھی عوامی منصب، اس کے فیصلوں سے ہزاروں لوگوں کے روزمرہ مسائل، وسائل، عزت و حقوق وابستہ ہو جاتے ہیں۔ سڑک، نالی، پانی، تعلیم، صحت اور سینکڑوں ذمہ داریاں، یہ سب عوام کے حقوق ہیں اور ان میں کوتاہی قیامت کے دن سخت باز پرس کا سبب بنے گی۔

آج کا المیہ یہ ہے کہ انتخابی عمل کو آسان سمجھ لیا گیا ہے، جیسے یہ محض اثر و رسوخ، تشہیر یا وقتی مقبولیت کا کھیل ہو۔ حالانکہ نبی کریم حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ نااہل شخص کا عہدے پر آ جانا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کون جیتے گا، اصل سوال یہ ہے کہ کون اللہ کے سامنے اس ذمہ داری کا حساب دینے کی ہمت رکھتا ہے؟

لہٰذا اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں ضروری ہے کہ ہر شخص تنہائی میں خود سے یہ سوال کرے: کیا میں واقعی اس ذمہ داری کا اہل ہوں؟ کیا میں لوگوں کے حقوق ادا کر سکوں گا؟ کیا میں قیامت کے دن اس منصب کا حساب دے سکوں گا؟ اگر یہ سوالات دل کو لرزا نہ دیں تو محض امیدوار بن جانا کوئی نیکی نہیں، بلکہ یہ ایک خطرناک جرأت ہے۔ دین اسلام ہمیں اقتدار کی طلب نہیں، اہلیت، امانت اور خوفِ خدا سکھاتا ہے۔ اگر یہ اوصاف کسی میں ہوں اور وہ ذمہ داری اس پر ڈالی جائے تو یہ سعادت ہے، لیکن اگر نفس کی خواہش کے تحت خود کو آگے بڑھایا جائے تو یہ دنیا میں فتنہ اور آخرت میں ندامت بن سکتی ہے۔