افغان علماء کا فتوی۔ ایک خوشگوار اور اہم پیشرفت

گزشتہ روز ایک افغان صحافی کا ٹیکسٹ میسج آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بڑی ڈیولپمنٹ ہوئی ہے اور افغان علماء نے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے۔ کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ افغان میڈیا کے مطابق 34صوبوں سے ایک ہزار علماء کابل میں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے ایک اعلامیہ/فتوی جاری کیا جس کی شق نمبر 3اور 4کے مطابق افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گرد حملوں کے لئے استعمال نہیں کی جا سکتی اور ایسا کرنے والوں کیخلاف امارت اسلامیہ (افغان طالبان حکومت) کارروائی کرے گی جبکہ چونکہ امیر شرعی (یعنی مولانا ہبت اللہ) نے کسی افغان کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ کسی بیرونی ملک میں فوجی سرگرمی کے لیے جائے، اس لیے جو افغان ایسا کرے گا اس کے خلاف امارت اسلامیہ کو اقدامات کرنے کا حق حاصل ہے۔

افغان میڈیا طلوع نیوز نے یہ خبر چلائی اور پھر رفتہ رفتہ سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے خبریں آنے لگیں۔ حتی کہ افغان وزیر خارجہ ملا متقی نے اسے باقاعدہ بیان کے ذریعے کنفرم کردیا۔ مختلف واٹس ایپ گروپس، خاص کر جہاں پاکستانی، افغان صحافی، تجزیہ کار اکٹھے موجود ہیں، اس پر بات شروع ہوگئی، خوشی اور امید کا اظہار بھی کیا گیا کہ اس سے خیر برآمد ہو وغیرہ وغیرہ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس فتوے میں کیا چیزیں اہم ہیں؟ خاکسار نے اس اسٹوری پر کام شروع کیا، افغان امور کو جاننے، سمجھنے والے پاکستانی تجزیہ کاروں سے بات کی، بعض افغان سورسز سے بات ہوئی، خاص کر قندھار اور کابل میں ایک دو ذمہ دار جاننے والوں سے اصل حقیقت جاننا چاہی تو دلچسپ صورتحال سامنے آئی۔

3 باتیں اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ افغان طالبان کے سیٹ اپ میں اگر علماء کا اجتماع ہوا ہو، حکومتی ذمہ داران اس میں شامل ہوں اور کوئی اعلامیہ جاری ہوا ہو تو وہ اہم تصور ہوتا ہے۔ افغان پس منظر میں یہ اہم بات ہے کیونکہ ماضی میں بھی اہم پالیسی بیانات یا غیر معمولی اہمیت کے فتوے جات کے لیے علما کا اجتماع ہی بلایا جاتا رہا اور انہی کے ذریعے وہ اسٹیٹمنٹ آتی ہے جسے بعد میں اسٹیٹ پالیسی بنا لیا جاتا ہے۔ قارئین میں سے بعض کو شاید یاد ہو کہ 9/11کے بعد اسامہ بن لادن کی امریکا کو حوالگی کے مطالبہ پر بھی افغان علماء کا بڑا اجتماع منعقد ہوا اور اس کنونشن نے اپنی اسٹیٹمنٹ دی کہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے نہ کیا جائے، تاہم وہ اپنے طور پر افغانستان چھوڑ کر چلے جائیں۔ بعد میں طالبان امیر ملا عمر نے یہی بات اسٹیٹ پالیسی کے طور پر کہی اور اگرچہ اس کی قیمت ادا کی مگر علماء کے اجتماع کے فیصلے کی پابندی کی۔ کابل کے حالیہ اجتماع میں علما، مشائخ کے علاوہ چیف جسٹس ملا عبدالحکیم حقانی بھی شریک ہوئے۔ یہ ایک طرح سے افغان طالبان کی نظریاتی پالیسی میں اہم ترین آدمی ہیں، ان کی افغان مذہبی اور علما طبقے میں عزت اور احترام ہے اور ان کی آرا کو توقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ افغان سیٹ اپ میں امیر ملا ہبت اللہ سے نیچے جو 3، 4 مختلف ستون یا پلرز ہیں، ان میں نظریاتی، فکری اور مذہبی ستون دراصل چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی ہیں۔ علماء کنونشن میں افغان وزیراعظم ملا حسن اخوند بھی شریک ہوئے۔ یہ بھی اہم شخصیت ہیں، حکومت سازی میں اور سیاسی طور پر بھی اپنی قوت رکھتے ہیں، عملیت پسند سمجھے جاتے ہیں اور بہت سے معاملات میں سخت گیر اور معتدل عناصر کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ علماء کنونش میں مجلس کی سربراہی 2 علماء نے کی، ان میں سے ایک بزرگ عالم دین شیخ حبیب اللہ سمنگانی ہیں۔ ان کا تعلق شمالی صوبے سمنگان سے ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ علما کا یہ اجتماع درحقیقت امیر ہبت اللہ کی ہدایت پر ہوا اور اس کے لیے خاصی کوشش کی گئی اور ظاہر ہے دور دراز علاقوں سے مختلف علما دین کو اکٹھا کیا گیا۔ ایک اور دلچسپ بات یہ پتہ چلی کہ دانستہ طور پر اس اجتماع کی میڈیا کوریج نہیں کرائی گئی تاکہ خواہ مخواہ کی غیر ضروری منفی ہائپ نہ ہو اور میڈیا سنسنی نہ پھیلائے۔ علما کا اجتماع کئی گھنٹے جاری رہا اور پھر اس کا اعلامیہ تشکیل دیا گیا جسے سب نے منظور کیا اور اس اعلامیہ کے بھی کئی گھنٹوں بعد اسے بتدریج میڈیا اور پھر سوشل میڈیا پر لیک کیا گیا۔

کابل اور قندھار کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق اس وقت ایسا موقف سامنے آنا خود بڑی پیشرفت ہے۔ امارت اسلامیہ میں علما کا موقف درحقیقت حکومت ہی کا موقف ہوتا ہے۔ افغان علماء کے اس غیر معمولی اجتماع نے اگرچہ یہ بات کہی کہ اگر افغانستان پر کوئی بیرونی قوت حملہ کرے تو تمام افغانوں پر لازم اور فرضِ عین ہے کہ اپنے نظام، اپنی سرزمین اور اپنی اقدار کا دفاع کریں اور یہ دفاع جہادِ مقدس شمار ہوگا۔ بعض پاکستان مخالف افغان چینلز اور سوشل میڈیا ہینڈلز نے اس نکتہ کو زیادہ اہمیت دی اور اسے پاکستان کے خلاف بیان قرار دیا۔ ذرائع اس کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ تو انڈراسٹڈ بات ہے، ظاہر ہے کسی بھی ملک پر حملے کے جواب میں وہاں کے عوام دفاع کریں گے ہی، یہ بات کہنا تو فطری اور منطقی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس اعلامیہ میں زور دے کر، بڑی وضاحت کے ساتھ یہ کہا گیا، چونکہ امارتِ اسلامیہ نے یہ عہد کیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، اس لیے تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کریں اور اس عہد پر عمل کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ جو شخص اس عہد کی پابندی نہیں کرتا، وہ نافرمان اور خلاف ورزی کرنے والا سمجھا جائے گا اور امارتِ اسلامیہ کو حق حاصل ہے کہ ایسے شخص کے خلاف ضروری اقدامات کرے۔

یہاں پر غور کریں کہ لفظ تمام مسلمانوں استعمال کیا گیا یعنی ضروری نہیں کہ وہ مسلمان افغان ہو، وہ غیر افغان بھی ہوسکتا ہے، مگر اسے بھی اس کی پابندی کرنا پڑے گی۔ اس طرح سے بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ افغان علماء کا اعلامیہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف فتوی ہے۔ ایک واضح اعلان ہے کہ وہ اپنی سرگرمیاں بند کردیں، ورنہ ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔

فتوے کے حوالے سے مزید کیا ہوسکتا تھا؟ میرے خیال میں 2، 3چیزیں ہونی چاہیے تھیں، تب شاید اس فتوے کا امپیکٹ بڑھ جاتا۔ پہلا یہ کہ اجتماع قندھار میں منعقد ہوتا کیونکہ افغان طالبان کے سیٹ اپ میں قندھار طاقت کا اصل مرکز ہے اور نظریاتی، مذہبی رہنمائی خاص طور سے قندھار سے جنم لیتی ہے۔ ممکن ہے کسی تکنیکی یا لاجسٹک وجوہات کی بنا پر کابل کا انتخاب کیا گیا ہو، ورنہ قندھار کا انتخاب بہتر رہتا۔ دوسرا بہتر ہوتا کہ بے شک میڈیا کو کوریج سے باہر رکھا جاتا، مگر ان ایک ہزار علماء کے اس اجتماع کی ویڈیو بنالی جاتی، جو بعد میں ریلیز کر دی جاتی۔ اس سے تمام شکوک دور ہو جاتے اور پتہ چل جاتا کہ افغانستان کے طول وعرض سے تمام اہم، نمایاں اور بڑے علمائے کرام، مفتیان عظام شریک ہوئے ہیں۔

فتوے کے بعد کیا کرنا چاہیے؟ اکا دکا تحفظات کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب تک جو ہوا، وہ مثبت اور دل خوش کن ہے۔ اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔ اگلا مرحلہ اب یہ ہونا چاہیے کہ اس فتوے پر عمل بھی کیا جائے۔ سختی سے اس کی پابندی کرائی جائے۔ افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو نہ صرف روکا جائے بلکہ کسی بھی اچانک قسم کے پریشان کن واقعے سے بچنے کیلئے پاک افغان سرحد کے قریب مقیم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو سرحد سے دور منتقل کردیا جائے۔

پاکستانی حکومت، ادارے اور فورسز اور عوام اس نکتے پر متفق ہیں، سب ایک ہی پیج پر ہیں۔ یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ افغانستان کے سامنے رکھی جا چکی ہے کہ وہ پاکستان کو قبول کریں یا ٹی ٹی پی کو؟ ان دونوں میں سے کسی ایک ہی سے اب تعلق رکھا جا سکتا ہے۔ اب انتخاب کرنا ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ افغانستان کو ٹی ٹی پی سے فاصلہ کرنا چاہیے، اسے روکنا چاہیے۔ ماضی میں ایک غلطی ان سے ہوئی جس کے نتیجے میں افغان حکومت ختم ہوئی، 20سال تک انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ مشکلات پاکستان کی مدد ہی سے ختم ہو پائیں۔ اب طالبان کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے پڑوسیوں والے تعلقات رکھیں۔ افغانستان اپنی مرضی کے مطابق کوئی بھی سفارتی، معاشی، اقتصادی پالیسی بنائے، جس مرضی تجارتی روٹ کو ترقی دے۔ پاکستان کو کوئی مسئلہ نہیں۔ ہمارا مسئلہ صرف یہ ہے کہ افغانستان سے پاکستان پر دہشت گرد حملے نہ ہوں۔ بس یہی ایک مسئلہ حل ہوجائے تو پھر پاک افغان تعلقات کا بحران فوری حل ہو سکتا ہے۔ اللہ کرے افغان علماء کے اس اعلامیہ یا فتوے سے خیر برآمد ہو۔ پاک افغان سرحد پر دہشت گردی ختم ہو۔ خطے میں سکون ہو اور دونوں ممالک میں خوشحالی آئے، آمین۔

دو جملوں میں اگر اس پیشرفت کا نچوڑ نکالا جائے تو وہ یہ بنے گا، اچھا اقدام ہے، خیر مقدم کرنا چاہیے، مگر اب اس فتوے پر عملدرآمد کرانا ہی اصل چیلنج ہے۔ اس پر عمل کیا جائے تو مسئلے کا پرامن، حقیقی حل نکل آئے گا۔