دو سالہ جنگ اور تباہی کے بعد غزہ میں طلبہ کی تعلیم کی طرف واپسی

رپورٹ: علی ہلال
فلسطینی مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے قائم اقوام متحدہ کے ادارے ’اونروا‘ نے کہاہے کہ غزہ میں اسرائیل کی دوسالہ تباہ کن جنگ کے نتیجے میں غزہ کی پٹی کے زیادہ تر اسکول کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
غزہ میں اکتوبر میں ہونے والی جنگ بندی کے بعد تعلیمی اداروں کے کھلنے کا سلسلہ شروع ہواہے اور بچوں نے اسکولوں کا رُخ کرلیا ہے۔ الشرق الاوسط کے مطابق غزہ کے وسطی علاقے النصیرات کے پناہ گزین کیمپ میں واقع الحساینة اسکول کے طلبہ تباہ حال حالات کے باوجود دوبارہ اپنی جماعتوں میں لوٹ آئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ ادارے بتدریج دوبارہ کھولے جا رہے ہیں۔10 اکتوبر سے جاری جنگ بندی کے بعد اقوامِ متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (اونروا) نے اس ہفتے اعلان کیا کہ جنگ سے تباہ ہونے والے علاقے میں تعلیمی اداروں کو مرحلہ وار دوبارہ کھولا جارہا ہے۔ اونروا کے کمشنر جنرل فیلیپ لازارینی نے منگل کو ایکس پر بتایا کہ 25 ہزار سے زائد طلبہ ایجنسی کے تحت قائم عارضی تعلیمی مراکز میں شامل ہوگئے ہیں جبکہ تقریباً 3 لاکھ طلبہ آن لائن تعلیم جاری رکھیں گے۔ رپورٹ کے مطابق الحساینة اسکول میں صبح کے وقت درجنوں بچیاں میدان میں جمع ہوئیں اور فلسطین زندہ (عاشت فلسطین) کے نعرے لگائے۔ اس کے بعد تقریباً پچاس بچیاں ایک کمرہ جماعت میں داخل ہوئیں اور بغیر میز یا کرسی کے فرش پر بیٹھ گئیں۔ناموافق حالات کے باوجود بچیاں معلمہ کے سوالات کے جوابات دے رہی تھیں اور تختہ سیاہ پر لکھا گیا سبق اپنی کاپیوں میں نوٹ کر رہی تھیں۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹیں نمایاں تھیں۔
الشرق الاوسط نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جنگ کے دوران یہ اسکول اونروا کے دیگر بہت سے مراکز کی طرح، درجنوں بے گھر خاندانوں کے لیے پناہ گاہ بن گیا تھا۔ اب بھی کچھ متاثرہ خاندان اسکول کی عمارت میں مقیم ہیں جس کی بیرونی دیواروں پر کپڑے سکھانے کی رسیاں لٹک رہی ہیں۔ایک اور کمرہ جماعت میں بھی اتنی ہی تعداد میں بچیاں فرش پر بیٹھی تھیں، اپنی کاپیوں کو گود میں رکھے ہوئے۔11 سالہ وردہ رضوان نے کہا کہ وہ اپنی تعلیمی زندگی کے معمول میں واپس آنے کی خواہش مند ہے۔ اس نے خبررساں ادارے کو بتایاکہ میں اب چھٹی جماعت میں ہوں لیکن نقل مکانی اور جنگ کی وجہ سے دو سال ضائع کر دیے ہیں۔’اونروا‘ نے اس ہفتے ایکس پر لکھا: جبکہ ایجنسی پناہ گاہوں میں مزید عارضی تعلیمی مراکز کھولنے کی کوشش کررہی ہے، کچھ بچے سیڑھیوں پر بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں۔ بہت سے اسکول تباہی کے حال میں ہیں۔‘ یونیسیف کے مشرقِ وسطیٰ کے علاقائی ڈائریکٹر ایڈورڈ بیگبیڈر نے اکتوبر کے آخر میں خبررساں ادارے سے گفتگو میں کہا کہ انسانی امدادی ادارے ایک ’وقت کے ساتھ دوڑ‘ میں ہیں تاکہ غزہ میں تعلیم کو دوبارہ اولین ترجیح بنایا جا سکے ورنہ خطرہ ہے کہ ’ایک پوری نسل‘ تعلیمی طور پر ضائع ہو جائے گا۔
خبررساں ادارے الجزیرہ نے گزشتہ ماہ اپنی تحقیقی رپورٹ میں کہاہے کہ اسرائیلی جنگ نے غزہ میں کوئی تعلیمی ادارہ سالم نہیں چھوڑا۔ الجزیرہ کی تحقیقی ٹیم ’الجزیرہ تحقق‘ کی جانب سے تیار کی گئی ایک نئی تحقیقی نقشے میں انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیلی جنگ نے غزہ پٹی میں کوئی تعلیمی ادارہ محفوظ نہیں چھوڑا۔ رپورٹ کے مطابق سینکڑوں اسکول اور جامعات یا تو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں یا جزوی نقصان کا شکار ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر (یونوسات) کے ڈیٹا کے تفصیلی تجزیے اور الجزیرہ ٹیم کی جانب سے 25 اگست تک کی جدید سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے پر مبنی ایک نقشہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق تعلیمی اداروں پر حملے جنگ کے ابتدائی مہینوں سے ہی منظم اور مسلسل طور پر جاری رہے جس سے ہزاروں فلسطینی طلبہ کے مستقبل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔رپورٹ میں سامنے آنے والے اعداد و شمار انتہائی تشویش ناک ہیں۔
تحقیقی نقشے کے مطابق 204 تعلیمی ادارے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، جن میں 190 اسکول اور 14 جامعات شامل ہیںجبکہ 305 ادارے جزوی طور پر متاثر ہوئے، جن میں 293 اسکول اور 12 جامعات شامل ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق تباہی کسی ایک علاقے تک محدود نہیں رہی بلکہ غزہ کی تمام محافظات (اضلاع) تک پھیل گئی۔ شہرِ غزہ سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 60 اسکول اور 7 جامعات مکمل طور پر تباہ ہوئیں جبکہ 123 اسکول اور 7 جامعات کو جزوی نقصان پہنچا۔ شمالی غزہ میں 44 اسکول اور جامعات مکمل طور پر تباہ ہوئیں اور 48 اسکول جزوی طور پر متاثر ہوئے۔ خان یونس میں تباہی کا دائرہ وسیع تھا جہاں 61 اسکول اور 5 جامعات مکمل طور پر تباہ ہوئیں جبکہ 64 اسکول اور 2 جامعات کو جزوی نقصان پہنچا۔ رفح میں 18 اسکول اور ایک جامعہ مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ 45 ادارے جزوی نقصان کا شکار ہوئے۔ دیر البلح میں 7 اسکول مکمل طور پر اور 15 اسکول و 2 جامعات جزوی طور پر متاثر ہوئیں۔
یہ تمام اعداد و شمار ایک ایسے نقشے نما رپورٹ میں پیش کیے گئے ہیں جو غزہ کی تعلیمی تنصیبات کو ان کی نوعیت اور نقصان کی سطح کے مطابق ظاہر کرتی ہے اور یہ منظرنامہ غزہ میں تعلیم کے مکمل انہدام کی تصویر پیش کرتا ہے۔ العربی الجدید نے اپنی رپوٹ میں لکھا ہے کہ غزہ کی پٹی میں مسلسل تیسرے تعلیمی سال کے لیے بھی 7 لاکھ 85 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات اپنی نشستوں سے محروم ہیں اور تعلیم کے بنیادی حق سے محرومی کا سامنا کررہے ہیں۔ جنگ کے نتیجے میں 95 فیصد تعلیمی ادارے تباہ ہوچکے ہیں جس سے تعلیمی نظام مکمل طور پر مفلوج ہوگیا ہے۔ اس تباہی کے باعث طلبہ کی علمی سطح بری طرح متاثر ہوئی ہے اور جہالت اور ناخواندگی کے بڑھتے ہوئے خدشات سامنے آرہے ہیں کیونکہ باقاعدہ تعلیمی سرگرمیاں تقریباً مکمل طور پر رُکی ہوئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس دوران اگرچہ چند تعلیمی پہل کاریاں اور خیمہ کلاسوں جیسی عارضی تعلیمی کوششیں جاری ہیں لیکن یہ اقدامات حقیقی متبادل ثابت نہیں ہو پا رہے۔